اِندرا گاندھی سے مودی کا تقابل کرنے کی کوشش

   

نلنجن مکھوپادھیائے
جتندر سنگھ ایک مرکزی وزیر کی حیثیت سے 6 قلمدانوں کے نگران یا انچارج ہیں۔ وہ دو وزارتوں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ارتھ سائنس کے آزادانہ قلمدانوں کے حامل ہیں اور چار دیگر وزارتی قلمدان وہ اپنے پاس رکھتے ہیں جن میں پرسونل و عوامی شکایات اور وظائف، جوہری توانائی، خلا اور سب سے زیادہ اہم دفتر وزیراعظم کا قلمدان شامل ہیں۔ آخرالذکر قلمدان و آزادانہ طور پر نہیں رکھتے بلکہ مملکتی وزیر برائے اُمور دفتر وزیراعظم ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو چھوڑ کر جتندر سنگھ مرکزی مجلس وزراء کے مختلف زمروں سے تعلق رکھنے والے 71 وزیروں میں سے ایک وزیر ہیں۔ مرکزی کابینہ میں شامل وزراء کی یہ تعداد کوئی چھوٹی موٹی تعداد نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ مرکزی وزارت مرکوزیت پر مبنی ہے۔ بہرحال آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ 25 جولائی کو ’’ایکس‘‘ پر ڈاکٹر سنگھ نے ایک پوسٹ کے ذریعہ یہ خبر دی کہ عہدہ وزارت عظمی پر مسلسل طویل مدت تک فائز رہنے کے معاملے میں مودی نے اندرا گاندھی کا ریکارڈ توڑ دیا۔ صبح 9 بجے کے آس پاس انہوں نے اپنے بیان کے ساتھ وزیراعظم نریندر مودی کی ایک بڑی تصویر اور اندرا گاندھی کی کسی قدر چھوٹی تصویر پوسٹ کی جس سے یہ ظاہر ہورہا تھا کہ مودی اندرا گاندھی جیسی خاتون آہن سے آگے نکل گئے۔ ان دونوں کی تصاویر شاید انہوں نے اس لئے استعمال کی تاکہ لوگوں کو یہ تاثر دیا جاسکے کہ مودی عہدہ وزارت عظمی پر فائز رہنے کے معاملے میں اندرا گاندھی سے آگے نکل گئے۔ اندرا گاندھی 4077 دِنوں تک وزارت عظمی کے باوقار عہدہ پر فائز رہیں۔ اس طرح وہ زیادہ مدت تک وزیراعظم رہنے والے دوسرے وزیراعظم بن گئے۔ آپ کو یاد دلادیں کہ شریمتی اندرا گاندھی 1966ء تا 1977ء تک مسلسل عہدہ وزارت عظمی پر فائز رہیں۔ اندرا گاندھی 4077 دنوں تک اس عہدہ پر فائز رہیں۔ مودی کے بارے میں اگرچہ دوسرے دعوؤں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا لیکن کچھ ایسے دعوے بھی ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ مودی نے مسلسل تیسری میعاد میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن پنڈت جواہر لال نہرو کی طرح واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ 2024ء کے عام انتخابات میں وہ اور ان کی پارٹی سادہ اکثریت حاصل کرنے سے بھی قاصر رہی۔ نتیجہ میں اسے اپنی حلیف جماعتوں مدد حاصل کرنی پڑی۔
پنڈت جواہر لال نہرو ہندوستانی تاریخ کے وہ پہلے وزیراعظم رہے جنہیں ہندوستانی تاریخ کا سب سے زیادہ مدت تک وزیراعظم رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔ اندرا گاندھی کو ملک کی پہلی اور واحد خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل رہا۔ چوہدری چرن سنگھ ہندوستان کی تاریخ کے ایسے پہلے وزیراعظم تھے جنہوں نے کبھی پارلیمنٹ کا سامنا نہیں کیا۔ اٹل بہاری واجپائی پہلے غیرکانگریسی وزیراعظم تھے جنہوں نے بحیثیت وزیراعظم اپنی پانچ سالہ میعاد پوری کی جبکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ہندوستان کے ایسے پہلے وزیراعظم ہونے کا اعزاز حاصل رہا جو اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو۔
جہاں تک پنڈت جواہر لال نہرو کا سوال ہے، وہ 16 سال 286 دن عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہے۔ اندرا گاندھی نے 15 سال 350 دن وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ نریندر مودی تاحال 11 سال 64 دن عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں۔ چوتھے نمبر پر ڈاکٹر منموہن سنگھ ہیں جنہوں نے 10 سال 4 دن تک وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ پانچویں نمبر پر اٹل بہاری واجپائی ہیں جنہیں 6 سال 80 دن تک اس باوقار عہدہ پر فائز رہنے کا موقع ملا۔ راجیو گاندھی نے 5 سال 32 دن، پی وی نرسمہا راؤ نے 4 سال 330 دن، مرارجی دیسائی نے 2 سال 126 دن، لال بہاری شاستری نے ایک سال 216 دن بحیثیت وزیراعظم ملک کی خدمت انجام دی۔ وی پی سنگھ 343 دن، اندرکمار گجرال 332 دن، ایچ ڈی دیوے گوڑا 324 دن، چندر شیکھر 223 دن، چرن سنگھ 170 دن اور گلزار لال نندا نے 26 دنوں تک وزیراعظم کے طور پر کام کیا۔ اگر سیاسی جماعتوں کے لحاظ سے دیکھا جائے تو انڈین نیشنل کانگریس کے 7، بی جے پی کے 2، جنتادل کے 3 اور جنتا پارٹی، ایس جے پی (آر) اور جے پی (ایس) کے ایک ایک وزیراعظم نے ملک کی خدمت کی۔ اس طرح کانگریس کو 54 سال 166 دن، بی جے پی کو 17 سال 144 دن (ابھی اس کا سلسلہ جاری ہے) جنتا دل کو 2 سال 269 دن، جنتا پارٹی کو 2 سال 126 دن، ایس جے پی (آر) کو 223 دن اور جے پی (ایس) کے ارکان کو بحیثیت وزیراعظم 170 دن کام کرنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ’’ایکس‘‘ پر وزیراعظم نریندر مودی کی زبردست ستائش کرتے ہوئے انہیں ایسا واحد وزیراعظم قرار دیا جنہوں نے ہندوستانی جمہوریت میں ایک منفرد کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ 24 برسوں سے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے سربراہ رہے جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اور مودی کو ملک کی آزادی کے بعد پیدا ہونے والے طویل مدت تک عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والی شخصیت کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ 2002ء، 2007ء اور 2012ء (گجرات) کے چیف منسٹر کے چیف منسٹر رہے اور 2014ء، 2019ء اور 2024ء (لوک سبھا) انتخابات میں بی جے پی کو کامیابی دلائی اور 2014ء سے ہی عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ایک اور بی جے پی لیڈر کے خیال میں مودی 2014ء میں عوامی تائید و حمایت سے وزیراعظم بنے۔ اس کے برعکس اندرا گاندھی اور پنڈت جواہر لال نہرو عوامی تائید کے بل بوتے نہیں بلکہ اس وقت کے حالات کے باعث عہدہ وزارت عظمیٰ پر فائز ہوئے۔ حالات کے نتیجہ میں پنڈت جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے وزیراعظم بننے کی بات جب بی جے پی قائدین کرتے ہیں تو یہ بات مودی پر بھی صادق آتی ہے، انہیں اکٹوبر 2001ء میں گجرات کا چیف منسٹر بنایا گیا حالانکہ وہ اس سے پہلے کسی بھی مقننہ ادارے کیلئے منتخب نہیں ہوئے تھے۔ انہیں اس لئے گجرات کا چیف منسٹر بنایا گیا، جب ریاست کے کچھ بی جے پی لیڈروں نے کیشو بھائی پٹیل کی جگہ مودی کو چیف منسٹر بنانے کا فیصلہ کیا۔ اگر دیکھا جائے تو بی جے پی اقتدار میں مزید چند برس رہتی ہے تو پھر تاریخ کے اسکولی نصاب میں بھی اُن تمام کو شامل کرلیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں ان کے مذکورہ کارناموں کو اسکولی نصاب میں بھی شامل کرلیا جائے بشرطیکہ بی جے پی کے اقتدار کا سلسلہ جاری رہے۔ بی جے پی قائدین اور مودی ایمرجنسی کیلئے اندرا گاندھی اور کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن پچھلے 11 برسوں کا ان کا ریکارڈ دیکھا جائے تو یہ کہا جاسکتا کہ وہ آزادی اظہار خیال اور جمہوریت کی چمپین نہیں رہی۔ جب بھی کسی فرد یا پارٹی نے بی جے پی اور مودی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی آواز دبائی گئی اور اس معاملے میں سنگھ پریوار کے عناصر نے سوشیل میڈیا پر ان لوگوں کی حالت بری کردی۔ نتیجہ میں کئی لوگوں نے مودی اور حکومت کے خلاف تنقید نہ کرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی۔ آپ کو بتادیں کہ کئی برسوں سے مختلف سرکاری اداروں میں بے شمار عہدہ مخلوعہ ہیں جن میں مقننہ اور عدلیہ بھی شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ڈپٹی اسپیکر کا دستوری عہدہ 2019ء سے خالی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو اپنے فیصلوں کی تصدیق و توثیق کرنے والا ادارہ سمجھ لیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ حکومت نے ایک ریٹائرڈ چیف جسٹس آف انڈیا کو راجیہ سبھا کیلئے نامزد کیا ہے۔ جبکہ مودی حکومت نے دوسرے ججس کو ریاستوں کے گورنر مقرر کئے ہیں۔ مودی اپنے آپ کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس طرح جس طرح اندرا گاندھی پارٹی میں مرکز ہوا کرتی تھیں، کئی ایسے اقدامات تھے جس نے کانگریس کی کشتی ڈبوئی اور مودی بھی اسی قسم کی من مانی اور اقدمات کررہے ہیں۔