محمد نصیرالدین
دینی مدارس یقینا ’’دین کے قلعے ہیں‘‘ جہاں دین کی اصل اور بنیاد ’’قرآن و حدیث‘‘ کی تعلیم کا نظم ہوتا ہے۔ اُصول و مقاصد شریعت سمجھائے جاتے ہیں اور دینی تعلیمات کا انسان کی روزمرہ زندگی اور معاشی، معاشرتی، سماجی و سیاسی زندگی سے کیا اور کیسا رشتہ ہے، سمجھایا جاتا ہے۔ یقینا یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ملک کے طول و عرض میں ہزاروں دینی مدارس کا جال پھیلا ہوا ہے جہاں سے ہر سال لاکھوں ہونہار طلباء دینی تعلیم سے فراغت حاصل کرتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ ملت کی دینی شناخت اور دین سے عملاً وابستگی میں ان دینی مدارس کا غیرمعمولی کردار ہے۔ دینی مدارس بے دینی اور گمراہ کن نظریات اور افکار کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں روشنی کا مینار ہیں جو قرآن و سنت کے نور کو عام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور منظر نامہ میں دینی مدارس کی اہمیت اور افادیت کا ازسرنو جائزہ لیا جائے اور ملت کے ان اداروں کو حالات زمانہ کے بدلتے تقاضوں اور ذمہ داریوں کے مطابق کارکرد بنایا جائے۔ اس طرح ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں کی تعداد میں خانقاہیں پائی جاتی ہیں جہاں ہزاروں بندگان خدا رجوع ہوتے ہیں اور وہاں سے روحانی سکون کے متلاشی ہوتے ہیں، لیکن مشاہدہ بتلاتا ہے کہ ان خانقاہوں سے رجوع ہونے والوں کی زندگیوں میں کردار کی پاکیزگی، معاملات کی درستگی، معاشی و معاشرتی مسائل و اُمور میں خوف خدا اور روزمرہ کے اُمور میں خوف آخرت بہت کم ہی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے بے دینی دین بیزاری شریعت سے غفلت اور احکام قرآن و حدیث سے دُوری چار سو نظر آتی ہے حالانکہ ان خانقاہوں نے ایسے اسلاف پیدا کئے جن کی زندگیاں تمام انسانوں کے لئے نمونہ عمل تھیں اور ان کے کردار و عمل سے لوگ ایمان کی آغوش میں جوق در جوق آتے تھے اور پاکیزہ روحیں آج بھی ایسے کردار کو دیکھنے کی مشتاق ہیں۔
ایسے وقت میں جب ملک کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو نہ صرف قرآن و حدیث سے ازلی بغض و عداوت رکھتے ہیں بلکہ ملک سے دین و ایمان کو ختم کردینے کے درپہ ہیں اور اس کی منصوبہ بندی اور عمل آوری میں لگے ہیں! دینی مدارس اور خانقاہوں کی اہمیت ان حالات میں بڑھ جاتی ہے بشرطیکہ دینی مدارس کے ذمہ دار اور خانقاہوں کے مُربین اس طرف توجہ دیں۔ دین و شریعت کے خلاف اُٹھنے والے اعتراضات اور تنقیدوں کا موثر اور مدلل جواب دینی فکر اور دینی شعور کے حامل افراد ہی موثر انداز میں دے سکتے ہیں جبکہ خانقاہوں سے وابستہ افراد اپنے عمل و کردار میں پاکیزگی، صالحیت، ایمان داری اور دیانت داری پیدا کرکے باشندگان ملک کے مخالف خیالات اور غلط فہمیوں کو دُور کرسکتے ہیں، ورنہ اس بات کا خدشہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں رہنے والے سادہ لوح اور معاشی طور پر پسماندہ افراد دین شریعت کے خلاف ہورہی سازشوں اور مکاریوں کی زد میں کہیں اپنے دین و ایمان سے محروم نہ ہوجائیں۔
یوں تو برادران وطن بھی دین اسلام کے متعلق کئی ایک غلط فہمیوں کا شکار ہیں لیکن حکمراں طبقہ دین اسلام کے تئیں اندھی مخالفت اور دُشمنی میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے ملت کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ، خود ساختہ دانشور افراد اور مختلف اعلیٰ عہدوں اور مناصب پر فائز یا فائز ہونے کی تمنا اور آرزو رکھنے والے افراد حکمراں جماعت کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ہیں یا خاموش ہوکر ان کے عزائم اور اِرادوں کو مضبوط کررہے ہیں۔ تین طلاق کا مسئلہ ہو یا حقوق نسواں کی بات ہو، نس بندی کی بات ہو یا تقسیم میراث کے معاملات یا احکام قرآنی کی تعبیر یا تفہیم ہو، ملت کے اندر ہی سے مختلف آوازیں اُٹھتی ہیں اور قسم قسم کی تاویلات کی جاتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے دینی مدارس جہاں سے ہر سال 8 تا 10 سال کے طویل عرصہ تک تعلیم حاصل کرنے اور دین و شریعت کی حکمتوں کو سمجھنے کے بعد جو طلباء سند فراغت حاصل کرتے ہیں، ان کی دین و شریعت کی حفاظت اور قرآن و سنت کے حقیقی پیغام کو عام کرنے کے تئیں کیا کوششیں اور جہد ہے؟ کیا وجہ ہے کہ یہ محترم فارغین دین و شریعت پر ہونے والے اعتراضات کا مدلل اور موثر جواب نہیں دے پاتے۔ قرآن و سنت کے متعلق پھیلائی جارہی غلط فہمیوں کا ازالہ نہیں کہ پائے اور اسلام و مسلمانوں کے خلاف ہورہی سازشوں اور منصوبہ بندی کو بے اثر کیوں نہیں کرتے؟ یہ وہ دینی مدارس ہیں جہاں اساتذہ خون جگر سے تعلیم دیتے ہیں، امت مسلمہ ان مدارس کو اپنی ذاتی ضروریات پر ترجیح دیتی ہے اور ملک کی آزادی کی جدوجہد میں جہاں سے بے شمار جیالے حصہ لئے اور دین و شریعت کی حفاظت کے لئے جہاں سے کئی مرد مومن پیدا ہوئے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اب ان دینی مدارس سے تاریخ ساز ہستیوں کے نکلنے کا سلسلہ بند ہوگیا؟
سب سے پہلی چیز جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ اس بات کو پھر سے ذہن نشین کریں کہ دینی مدارس دراصل دین و شریعت کے قلعے ہیں جہاں دین کے محافظ اور سپاہی تیار ہوتے ہیں جو اسلام اور اس کی تعلیمات کو بیرونی حملوں سے محفوظ رکھتے ہیں اور شریعت اسلامی کے اُصول و مقاصد کو ملت کے فکر و عمل سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے دینی مدارس کے کرتا دھرتا تصور سے محروم ہوگئے ہیں، وہ اس بات پر قناعت کرگئے کہ یہاں یتیم و یسیر و معاشی طور پر کمزور بچوں کے گذر بسر کا انتظام کرنا ہے اور ساتھ میں حفظ قرآن اور کچھ فقہی مسئلے سمجھا دینا ہے جس کی وجہ سے یہاں وہ افراد تیار نہیں ہورہے ہیں جو باطل کی آنکھ میں آنکھ ملاکر دین و شریعت کے خلاف الزام تراشیوں اور غلط فہمیوں کو دُور کرسکے۔ دوسری چیز جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ دینی مدارس کو عصری تقاضوں اور ضروریات سے ہم آہنگ کیا جائے۔ دینی مدارس میں قومی و علاقائی زبانوں کو سکھانے کے علاوہ سیاسی، سماجی، معاشی اور معاشرتی معلومات بھی بہم پہنچائی جائیں اور ان کے تئیں فارغین کی ذمہ داریوںاور تقاضوں سے بھی واقف کروایا جائے۔ تیسری طرف دینی مدارس میں دوسرے اَدیان اور نظریات و مذاہب سے متعلق ضروری معلومات کا انتظام کیا جائے و نیز اسلام و مسلمانوں کے خلاف ہورہی سازشوں و منصوبہ بندیوں سے بھی واقف کروایا جائے۔ چوتھی چیز جس کی طرف عالم اسلام کے مایہ ناز مفکر مولانا مودودی ؒ نے توجہ دلائی وہ یہ کہ ’’ہمیں اہل علم کا ایک لشکر تیار کرلینا چاہئے جو علوم و فنون اور ادب کے ہر پہلو سے نظام حاضرہ پر حملہ آور ہوسکے۔ کچھ سیاسی مفکرہوں جو حال کی کافرانہ سیاست کے مکروہ خدوخال کو نمایاں کرسکیں، کچھ معاشی ماہرین ہوں جو رائج الوقت معاشی تنظیم کے عیوب کو کھولیں، کچھ علماء قانون کی ضرورت ہے جو موجودہ انسانی قوانین کی بے اعتدالیوں کو نمایاں کریں، اخلاق و نفسیات کے کچھ حکماء چاہئے جو عہد ِ حاضر کے علم النفس اور علم الاخلاق کی کوتاہ بینیوں کی نشاندہی کرسکے۔ پانچویں چیز جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ کہ دینی مدارس کے نظم و انصرام کو معقول اور بہتر بنایا جائے و نیز ہر قسم کے استحصال سے پاک کیا جائے۔ دینی مدارس بدقسمتی سے آج ذاتی یا خاندانی ملکیت میں تبدیل ہوچکے ہیں اور طلباء کے نام پر چند لوگ عیش و عزت کے مزہ لینے لگے ہیں۔ دینی مدارس کو امانت و دیانت کے اصول پر چلانے اور ملت کے سامنے جوابدہ بنانے کی ضرورت ہے۔
مسلم معاشرہ میں علماء کی ویسی ہی اہمیت ہے جیسے دن کے اوقات میں سورج کی روشنی کی ہوتی ہے۔ علماء نہ صرف ملت کی رہنمائی کا عظیم فریضہ انجام دیتے ہیں بلکہ دین و شریعت کے خلاف سازشوں اور الزام تراشیوں کو بھی بے اثر کرسکتے ہیں و نیز دین و شریعت کو مختلف آلودگیوں سے محفوظ رکھنے اور شکوک و شبہات سے بچانے کا بھی اہم فریضہ انجام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’دو گروہ ہیں، اگر وہ درست ہوں تو امت درست ہوجائے گی اور وہ بگڑ جائیں تو اُمت بگڑ جائے گی، حکمراں اور علماء۔ مزید آپؐ کا ارشاد ہے: علماء دین کے وارث ہیں جب تک دنیا کی طرف مائل نہ ہوں اور بادشاہوں کے یہاں آمدورفت نہ کریں اور جب وہ دنیا کی طرف مائل ہوجائیں اور بادشاہوں سے میل جول بڑھائیں تو اُن سے ڈرو کیوں کہ وہ دین کے چور ہیں‘‘۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ فی زمانہ علماء اور دینی مدارس کے ذمہ دار حکمرانوں اور سرمایہ داروں سے قربت کو باعث افتخار سمجھنے لگے ہیں بلکہ میل جول و تعلقات بڑھانے کی مسابقت میں لگے ہیں۔ حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانا، ان کی بداعمالیوں کو صحیح بتانا یا بدکاریوں پر خاموش ہوجانا علماء کا طرۂ امتیاز بن چکا ہے۔ یہ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ دینی علوم کا مرکز بتانے والے دینی علوم کے درس و تدریس کا انتظام کرنے والے محض ایک آڈیٹوریم کی تعمیر کے لئے حکومت سے کروڑہا روپئے حاصل کرتے ہیں۔ سرکاری منصب حاصل کرنے سفارشوں کا جال بنتے ہیں اور اسکول کی اراضی کو خاندانی اراضی میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں! ! کیا ایسے مدارس سے اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ وہاں سے مخلص دین کے خدمت گذار اور مجاہدین شریعت نکلیں گے؟
آج ملک میں ہر طرف مسلمانوں پر ظلم و زیادتی کا بازار گرم ہے۔ ماب لنچنگ کے واقعات نے عام مسلمانوں کے اندر خوف و دہشت پیدا کردی ہے۔ کشمیر کے 80 لاکھ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے لیکن حکمرانوں کے درپہ چکر کاٹنے والوں کی زبانیں گنگ ہیں، انہیں مظلوم مسلمانوں کی آہیں اور چیخیں سنائی نہیں دے رہی ہیں، وہ اپنی دنیا کے مزے لینے میں مست ہیں۔ شاید امام غزالیؒ نے ایسے ہی علماء کے متعلق فرمایا: ’’طمع دنیا نے علماء کی زبانیں گُنگ کردی ہیں اور وہ خاموش ہیں اور اگر وہ بولتے بھی ہیں تو ان کے قول و عمل میں مطابقت نہیں ہوتی۔ اس لئے ان کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اگر آج بھی خلوص و صداقت سے کام لیں اور علم کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں تو ان کو ضرور کامیابی ہو‘‘۔
ایسا نہیں ہے ملت ان افراد سے خالی ہوگئی جو حق و ایمان سے محروم ہوں اور باطل کے سامنے سرنگوں ہوگئے ہوں بلکہ آج بھی ایسی ہستیاں موجود ہیں جو باطل کو خاطر میں نہیں لاتیں اور مرعوب نہیں ہوتیں۔ مصر کے سابق صدرحکمراں محمد مرسی ؒ اس سلسلے میں اپنی مثال آپ ہیں اور سارے عالم اسلام کے لئے بہترین نمونہ بھی۔ ’’مرسیؒ جمعہ کی تیاری کررہے تھے، اچانک سیکریٹری کا فون آیا کہ امریکی صدر اوباما کے دفتر سے فون آرہا ہے، وہ بھی اسی وقت 10 منٹ کے لئے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے دفتر والے بتا رہے ہیں کہ پھر اس کے بعد صدر اوباما کے پاس وقت نہیں ہوگا۔ صدر مرسیؒ نے جواب دیا: ’’انہیں بتادیں کہ اس وقت میرا اپنے اللہ سے ملاقات کا وقت طئے ہے، اس وقت بات نہیں ہوسکتی۔ اگر آج ان کے پاس وقت نہیں ہے تو میں بھی فارغ ہوکر جب وقت ہوگا انہیں اطلاع کرادوں گا۔ انہیں یہ بھی بتادیں کہ یہ رابطہ 10 منٹ کے لئے نہیں بلکہ صرف 5 منٹ کیلئے ہوگا‘‘۔ ظاہر ہے جو بندہ اپنے مالک سے جڑا ہوا ہوگا، اُس کی نظر میں بڑے سے بڑے حکمراں اور طاقت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی!!
کاش !ہمارے علماء، مدارس کے منتظمین اور خانقاہوں کے ذمہ دار اپنی سرگرمیوں اور کوششوں کا جائزہ لیتے اور دیکھتے کہ اللہ کے لئے کتنی سعی و کوشش ہورہی ہے اور دنیا کیلئے کتنی سعی و جہد ہورہی ہے؟
نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’جہنم میں ایک گھاٹی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز 400 مرتبہ پناہ مانگتی ہے!‘‘، کسی نے پوچھا: ’’یارسول اللہؐ! اس میں کون داخل ہوں گے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’حفاظ اور مولوی جو نمود کیلئے عمل کرتے ہیں‘‘۔ (ابن ماجہؒ)
اِن مدرسوں ، اِن خانقاہوں کو آخر کیا ہوگیا
نہ ہی پھل دیتے ہیں ، نہ ہی سایہ ، یہ باغاتِ رسولؐ
