آئندہ دس روز میں روسی S-400 میزائل سسٹم کی وصولی : اردغان

,

   

l G-20 کانفرنس میں ٹرمپ کی اردغان سے ملاقات کے وقت S-400 سودے پر تشویش
l ترکی میزائل سودے سے ہرگز دستبردار نہیں ہوگا

انقرہ ۔ یکم ؍ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا ہے کہ آئندہ 10 روز میں روسی S-400 فضائی دفاعی میزائل سسٹم ترکی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اردغان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ترکی مذکورہ دفاعی سسٹم کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ اختلاف پر ’بنا کسی مشکل‘ کے قابو پالے گا۔امریکہ کئی بار ترکی کو روسی میزائل سسٹم کی خریداری کے نتائج سے خبردار کر چکا ہے۔ واشنگٹن کے مطابق اس ہتھیار کو ناٹو ممالک کے دفاعی نظام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ انقرہ پر پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے۔ ان دھمکیوں میں F-35 لڑاکا طیاروں کے منصوبے میں ترکی کی شرکت روک دینا شامل ہے۔دوسری جانب ترکی پہلے ہی اس بات کے عزم کا اظہار کر چکا ہے وہ اس سودے سے دست بردار نہیں ہو گا جسے انقرہ ایک اہم کامیابی شمار کرتا ہے۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جاپان میں (جی – 20) سربراہ اجلاس کے ضمن میں ہفتہ کے روز ہوئی ملاقات میں اپنے ترک ہم منصب رجب طیب اردغان کو باور کرایا تھا کہ انقرہ کی جانب سے روسی S-400 دفاعی سسٹم کی خریداری ایک ’مسئلہ‘ ہے۔ سربراہ اجلاس کے اختتام کے بعد ایک پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے واضح کیا کہ اگر ترکی S-400 سسٹم کی خریداری پر بضد رہا تو اس پر امریکی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔یاد رہے کہ امریکہ اس سودے کے حوالے سے کئی بار اپنی مخالفت کا اظہار کر چکا ہے اور سمجھوتے سے دست برداری کے لیے ترکی کو 31 جولائی تک کی مہلت دی ہے۔
امریکہ مذاکرات چاہتا ہے تو اسے ایران کا احترام کرنا ہو گا : جواد ظریف
تہران ۔ یکم ؍ جولائی (سیاست ڈاٹ کام) ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کا کہنا ہے کہ ان کا ملک امریکی دباؤ کے آگے ہر گز نہیں جھکے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر امریکہ ایران کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے تو اسے ایران کا احترام کرنا ہو گا۔جواد ظریف نے یہ بات سرکاری ٹی وی پر پیر کے روز نشر ہونے والے براہ راست بیان میں کہی۔گذشتہ چند ہفتوں کے دوران تہران اور واشنگٹن کے بیچ کشیدگی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ یاد رہے کہ 2015 میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے نیوکلیئر معاہدے سے امریکی علاحدگی کو جاریہ برس مئی میں ایک سال پورا ہو چکا ہے۔ مذکورہ معاہدے کے مقابل ایران پر عائد بین الاقوامی مالیاتی پابندیاں اٹھا لی گئی تھیں۔امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران میں حکمراں نظام کے ساتھ ’’پیشگی شرط کے بغیر‘‘ مذاکرات پر زور دیا ہے۔ تہران نے اس کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ٹرمپ مذاکرات چاہتے ہیں تو انہیں نیوکلیئر معاہدے میں واپس آنا ہو گا۔ٹرمپ نے تہران پر دباؤ بڑھانے کے لیے غیر معمولی اقدام کے طور پر ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای اور دیگر نمایاں ایرانی ذمے داران پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ یہ پیشرفت گذشتہ ماہ ایران کی جانب سے ایک امریکی ڈرون طیارہ مار گرائے جانے کے بعد سامنے آئی ہے۔