آخر کب…؟

   

پروین کمال
گزشتہ سال 3 اکٹوبر کو جرمن اتحاد کے 30 سال مکمل ہونے کے اس خاص موقع پر ہم نے ’’برلن‘‘ کے دورے کا پروگرام بنایا۔ اگرچہ کہ اس وقت کورونا کے مضراثرات سے برلن شہر بہت زیادہ متاثر تھا لیکن ان حالات کا ہماری روانگی پر کوئی اثر نہیں پرا۔ برلن جو اتحاد جرمنی کے بعد جرمن دارالحکومت کی حیثیت سے غیر ممالک میں بھی اپنا ایک خاص مقام رکھتا ہے۔ اس تاریخی شہر کو دیکھنے کی تمنا دل میں ہمیشہ کروٹیں لیتی رہی کیوں کہ اس شہر کے حوالے سے اتنی فلمیں دیکھیں، اتنی ضخیم کتابیں پڑھنے میں آئیں کہ اسے جیتا جاگتا دیکھنے کی خواہش بڑھتی ہی گئی۔ حالانکہ یوروپ کے تمام بڑے شہر دیکھ ڈالے لیکن برلن کی بات ہمیشہ ہی پس پشت رہ گئی اور اب ان ہنگامی حالات میں جانے کا اتفاق ہوا۔ جن کی روداد قارئین کے زیر نظر ہے ملاحظہ ہو برلن جو اتحاد جرمنی کے بعد ایک مرکزی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ جرمنی کا سب سے بڑا شہر ہے۔ برلن کو جنگ عظیم کے بعد کے دور میں دیکھا جائے تو یقین نہیں کیا جاسکتا کہ یہ وہی کھنڈرات والا شہر ہے جو گولہ بارود کے قہر سے مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا۔ اتنے فضائی حملے ہوئے کہ عمارتوں کی جگہ مٹی کے ڈھیر نظر آتے تھے اور پھر جب جرمنی کو شکست ہوئی تو فاتح اقوام (امریکہ۔ برطانیہ۔ فرانس۔ اور سوویت اتحاد) نے اسے آپس میں تقسیم کرلیا۔ مغربی حصہ امریکہ۔ فرانس اور برطانیہ کے قبصے میں رہا جبکہ مشرقی حصہ سوویت اتحاد کے زیر اثر رہا۔ اور یوں اس نے وہاں ’’Communism ‘‘ (اشتراکی نظام) قائم کردیا۔ جس کا سیاسی نظام ’’آمریت‘‘ ہے۔ ادھر مغربی حصے میں امریکی فوج نے ’’Capitalism‘‘ (سرمایہ دارانہ نظام) برقرار رکھا جس کا سیاسی نظام ’’جمہوریت‘‘ ہے۔ یوں جرمنی کے دونوں حصے دو مختلف نظاموں کے تحت چلنے لگے۔ لیکن مشرقی جرمنی کے باشندے اشتراکی نظام کی وجہ سے بہت ساری مشکلات کا شکار ہوگئے۔ تاہم بحیثیت قوم اور شہری کے اس نئے طرز زندگی کو انہیں قبول کرنا ہی تھا۔ لیکن ان میں کئی ایک افراد ایسے بھی تھے جو اس تکلیف دہ نظام سے راہ فرار اختیار کرکے کسی طرح مغربی جرمنی پہنچ گئے۔ جب فرار ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تو مشرقی جرمنی کی کمیونسٹ حکومت نے انہیں روکنے کے لیے دیوار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ علیحدگی کے بارہ سال بعد کی بات ہے 1961ء میں ’’دیوار برلن‘‘ تعمیر کروائی گئی۔ اس دیوار کی وجہ سے کئی ایک خاندان جدا ہوگئے۔ وہ ایک دوسرے کی صورت تک دیکھنے سے محروم تھے۔ کیوں کہ قانون اتنے سخت بنائے گئے تھے کہ اگر کوئی دیوار کے قریب تک بھی جانے کی جرأت کرے تو گارڈز اس کو شوٹ کردینے کے مجاز تھے۔ اس کے باوجود بھی مشرقی باشندے کوشش ضرور کرتے تھے۔ چنانچہ ان فرار ہونے والے شہریوں میں سب سے پہلی ایک مشرقی خاتون تھی جس نے دیوار کی تعمیر کے کچھ ہی دن بعد فرار ہونے کی کوشش کی۔ 45 سالہ بھاری جسامت والی یہ خاتون خاردار تاروں سے الجھتی ہوئی نجانے کیسے دیوار کی اوپری سطح تک پہنچ گئی۔ اسی وقت گارڈز نے اسے دیکھ لیا اور رسی کا پھندا پھینک کر اسے نیچے گرایا اور وہ جانبر نہ ہوسکی۔ دیوار کی تعمیر کے بعد ان اٹھائس برسوں میں سب سے آخر میں فرار ہونے کی کوشش کرنے والا ایک 20 سالہ مشرقی نوجوان تھا۔ اس کی بدنصیبی یہ تھی کہ وہ دیوار گرائے جانے سے صرف نو مہینے پہلے بارڈر عبور کرنے کی کوشش میں گارڈز کی گولیوں کا نشانہ بن گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ عنقریب دیوار کی بندش ختم ہونے والی ہے اور سب لوگ آسانی سے مغربی جرمنی میں داخل ہوسکیں گے۔ غرض کئی اور ایسے واقعات ہوچکے ہیں جن کے تذکرے سن کر کوئی بھی حساس اور باضمیر انسان کانپ اٹھے گا لیکن ایک بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ اس علیحدگی کو مشرقی باشندوں نے کبھی قبول نہیں کیا اور وہ اس سرحدی دیوار کو ختم کرنے کے لیے مسلسل احتجاجی مظاہرے کرتے رہے۔ علاوہ اس کے بین الاقوامی سطح پر بھی دن بہ دن دبائو بڑھتا گیا جس کے باعث کمیونسٹ حکومت نے دیوار ختم کرنے پر سنجیدگی سے سوچنا شروع کیا اور ادھر مغربی جرمنی کے اس وقت کے چانسلر نے تمام سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ملک کرطئے کیا کہ اپنی سرزمین حاصل کرکے ہی رہیں گے۔ چنانچہ آپسی مصالحت سے معاملہ تکمیل کو پہنچا۔ وہ یوں کہ جرمنی کو سولہ ملین مارک سوویت اتحاد کو ادا کرنے پڑے۔ اور یوں مشرقی باشندوں کو اس قید سے آزادی ملی۔ 9 نومبر 1989ء جرمن تاریخ میں ہمیشہ ایک یادگار دن مانا جائے گا کیوں کہ اس دن 28 برس کے طویل عرصے بعد دیوار گرادی گئی تھی۔ گزشتہ سال دیوار کے خاتمے کے 30 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ 30 ویں سالگرہ کے اس پر مسرت موقع پر محدود پیمانے پر تقریبات منائی گئیں کیوں کہ وائرس کی وجہ سے زیادہ مجمع خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ اس خوشی کے موقع پر صدر جرمنی نے فخریہ انداز میں کہا ’’ہمارا ملک اب وسطی یورپ کا سب سے برا جمہوری ملک بن گیا ہے‘‘ غرض ذکر چل رہا تھا دیوار کا۔ یہ دیوار جو مشرقی جرمنی نے مغربی جرمنی کے گرد دونوں حصوں میں علیحدگی قائم کرنے کے لیے تعمیر کی تھی، اس دیوار کو بہت سارے حصوں میں گرادیا گیا ہے لیکن کہیں کہیں یادگار کے طور پر ابھی تک باقی رکھی گئی ہے۔ ہم جب دیوار دیکھنے کے لیے گئے جو ہمارا اصل مقصد تھا۔ دیکھا تو اب وہاں اسکا نام و نشان تک باقی نہیں ہے۔ ایک قدم مغربی زمین سے اٹھایا تو دوسرا خود بخود مشرقی زمین پر پہنچ گیا۔ کیوں کہ سرحدی فاصلے تو کب کے ختم ہوچکے ہیں۔ نیچے زمین پر دیکھا تو زمین میں گڑھے مستطیل نما پتھروں پر کندہ ہے۔ 9 نومبر 1989 ء دیوار گرادی گئی اس احاطے میں دوب کے وسیع و عریض لان بنادیئے گئے ہیں جہاں کبھی گارڈز ہوا کرتے ہوں گے اور فرار ہونے کی کوشش کرنے والے ان کی گولیاں کھاکر اسی احاطے میں گرتے ہوں گے۔ ان مرحوم انسانوں کی تصویریں دیواروں پر پینٹ کی ہوئی ہیں۔ نام۔ تاریخ اور مختصر سی روداد بھی درج ہے۔ اس وقت چمکیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی جو ٹھنڈے ملکوں کے لیے انمول تحفہ ہے۔ دور تک پھیلے ہوئے لان پر تفریح منانے کے لیے بہت سارے لوگ آئے ہوئے تھے۔ دیوار جہاں تھی اس کے چاروں طرف سرخ چھتوں والے پر شکوہ مکان بنادیئے گئے ہیں۔ دیوار کے اندر جو آہنی سلاخیں تھیں وہ آج بھی وہیں کھڑی ہیں۔ جس کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ ایک تفومند آدمی اس کے درمیان سے آسانی سے گزرسکتا ہے۔ دیوار تو اب نہیں رہی لیکن اس کی کچھ نشانیاں آج بھی باقی ہیں۔ تاکہ ماضی کے بعد کی یاد گار باقی رہے۔ اسی لیے یہ اونچی اونچی سلاخیں اصلی حالت میں باقی رکھی گئی ہیں۔ ویسے ان کا کوئی مصرف نہیں ہے۔ اس احاطے میں کھڑے ہوکر ہمیں شدت سے احساس ہوا کہ زمین اگر بٹ جائے تو کتنی دوریاں ہوجاتی ہیں۔ ایک دوسرے کے دیوار سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ اور جب متحد ہوجائے تو قدم خواہ ادھر رکھیں یا ادھر۔ سب کچھ اپنا ہی ہوتا ہے۔ میں نے راہ چلتی خاتون سے کریدنے والے انداز میں پوچھا۔ آپ مشرقی حصے سے تعلق رکھتی ہیں یا مغربی؟ کہنے لگیں ’’یہاں کوئی مغربی یا مشرقی نہیں ہے، یہ سرزمین ہم سب کی ہے اور ہم سب جرمن قوم ہیں۔‘‘ یہ ان کی قوم پرستی اور حب الوطنی ہے۔ ایک دوسرے پر مرمٹنے کا جذبہ ہے کہ اپنی قوم اور ملک اور زمین کو اپنا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ 40 برس (1949 تا 1989) وہ دو متضاد نظاموں کے تحت زندگی گزارتے رہے ہیں۔ علیحدگی کے ان چار عشروں میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان کے سوچنے کا انداز بدل گیا ہوتا۔ بٹی ہوئی زمین پر رہنے سے دوریاں بڑھ جاتیں۔ نئی خصومتیں پیدا ہوتیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ نظریاتی لکیر جو دو الگ الگ نظاموں کے قائم ہونے سے بن گئی تھیں وہ مٹ چکی ہیں اور بکھری ہوئی قوم ایک ہی راستے پر آگئی ہیں۔ وہ ہے ایک دوسرے کو اپنانے کا راستہ۔ آپسی رنجشیں مٹانے کی کوشش۔ ٹوٹی تہذیبیں ہموار کرنے کا جوش۔ (باقی آئندہ…)