آخر گاندھی خاندان سے کس بات کا بیر!

   

ظفر آغا
حکم سرکار کا، خاموش، چپ رہئے، زبان نہ ہلے! اگر محمد زبیر کی طرح حکمراں جماعت کے جھوٹ کو جھوٹ کہا تو جیل جایئے اور سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کی طرحاکم وقت پر انگلی اٹھائی تو آپ کا بھی وہی حشر ہوگا جو تیستا کا ہوا۔ یعنی بس چپ رہئے اور حاکم وقت یا حکمراں جماعت کے آگے سر باسجود رہئے۔ جی ہاں، یہ ہے نئے ہندوستان کی نئی جمہوریت۔ ابھی تک ہم اور آپ یہ سمجھتے تھے کہ جمہوریت میں حکومت وقت کی نکتہ چینی ہر ہندوستانی کا بنیادی حق ہے۔ جی نہیں ، اب جمہوریت کا نیا سانچا بن رہا ہے، جس میں حاکم وقت اور حکمراں جماعت ہر قسم کی نکتہ چینی سے مبرا ہوگی۔ اور تو اور یہ ’نیا ‘ جمہوری نظام محض شہریوں پر ہی نہیں بلکہ حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں پر بھی لاگو ہوگا۔ اگر پھر بھی حزب اختلاف کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ حکومت کے خلاف شور مچاتی رہتی ہے تو اس کے خلاف ای ڈی لگا دی جائے گی تاکہ ان کو سمجھ میں آ جائے کہ خاموش رہو ورنہ ای ڈی کے چکر لگاؤ۔
حزب اختلاف کو خاموش رکھنے کے لئے محض ایک ای ڈی کا ہی استعمال نہیں ہو رہا ہے بلکہ اگر کوئی لیڈر ای ڈی کے دباؤ میں نہیں آتا تو پھر اس کو طرح طرح سے ذہنی تکلیف دی جاتی ہے۔ ابھی آپ نے سنا اور پڑھا ہی ہوگا کہ پارلیمنٹ کے اندر مودی حکومت کی مشہور وزیر اسمرتی ایرانی کا نگریس صدر سونیا گاندھی کے ساتھ پارلیمنٹ کے اندر کس بدسلوکی سے پیش آئیں۔ یہ بی جے پی کا اپوزیشن کو چپ کرانے کا نفسیاتی حربہ ہے۔ طریقہ کار یہ ہے کہ حریف کو ذہنی طور پر اذیت دے کر اس کو خاموش رہنے پر مجبور کردو۔ سمرتی ایرانی اسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا استعمال سونیا گاندھی کے خلاف کر رہی تھیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اب اس ملک میں گاندھی خاندان کو بھی طرح طرح سے اذیت دی جا رہی ہے۔ لوگوں کو نہرو۔گاندھی خاندان سے نااتفاقی ہو سکتی ہے لیکن اس خاندان کے مخالفین بھی اس بات سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ اس خاندان نے ہندوستان کی ترقی کے لئے جو قربانیاں دی ہیں اور جس طرح آزادی کے 75 سالوں میں ملک کو جدیدیت کے راستے پر چلایا ہے ایسا کوئی دوسرا نہیں کر سکا۔ خود پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے لے کر سونیا گاندھی تک کی ملک کے لئے بیش بہا خدمات کا ذکر کیا جائے تو ایک دفتر بھی کم پڑ سکتا ہے۔ جواہر لال نہرو نے نہ صرف باحیثیت وزیر اعظم ملک میں جمہوریت کے بیج بوئے بلکہ آئی آئی ٹی، آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈکل سائنس اور نہ جانے کتنے ایسے ادارے قائم کئے جن کے ذریعے ہندوستان آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ یہ وہی جواہر لال نہرو ہیں جنہوں نے جنگ آزادی کے دوران نو برس انگریزوں کی جیل میں گزارے لیکن آپ واقف بھی ہوں گے کہ پورا سنگھ پریوار انہی جواہر لال نہروں کے خلاف کس طرح دن رات جھوٹا پروپگنڈا کرتا رہتا ہے۔
اس کے علاوہ اندرا گاندھی اور ان کے بیٹے راجیو گاندھی بھی سنگھ کے نشانہ پر رہتے ہیں۔ آج بھی ملک اندرا گاندھی کی جرأت کا قائل ہے۔ یہ ان کی ہمت کا صلہ ہے کہ آج پاکستان دو ٹکڑوں میں بٹ گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بنگلہ دیش کی معمار بنیادی طور پر اندرا گاندھی ہی تھیں۔ اسی طرح ان کے بیٹے راجیو گاندھی نے اس ملک کے خاص و عام کے ہاتھوں میں کمپیوٹر تھما دیا۔ اس حقیقت سے بھی سب واقف ہوں گے لیکن ان پر کیچڑ اچھالا جاتا ہے ، یاد رکھئے کہ اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی دونوں ہی کا قتل کیا گیا اور ان کی قربانی سے ملک مضبوط ہوا۔ سونیا گاندھی انہی راجیو گاندھی کی بیوی ہیں جن کو اب طرح طرح سے اذیت دی جا رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ وہی سونیا گاندھی ہیں، جن کی وجہ سے بی جے پی سن 2004 سے 2014 تک اقتدار سے باہر رہی۔ صرف اتنا ہی نہیں انہی سونیا کی منریگا جیسی اسکیم کے سبب ملک کے 11 کروڑ افراد غریبی ریکھا سے اوپر ہو کر مڈل کلاس میں داخل ہو گئے۔ ایسی لیڈر کے ساتھ اسمرتی ایرانی جیسی وزیر بھری پارلیمنٹ میں بدسلوکی سے پیش آ رہی تھیں۔ لیکن یہ گاندھی خاندان خصوصاً کیوں سنگھ اور بی جے پی کے نشانہ پر ہے۔
بات سیدھی سی ہے، سنگھ اور بی جے پی دونوں کو اس گاندھی خاندان سے ڈر لگتا ہے۔ خوف اس بات کا ہے کہ آج نہیں تو کل اس ملک کے عوام گاندھی خاندن کے افراد کی قیادت میں بی جے پی کو اقتدار سے اکھاڑ سکتے ہیں۔ سن 2004 میںیہی تو ہوا تھا، سونیا گاندھی کی قیادت میں اٹل بہاری کی بی جے پی حکومت کو یو پی اے نے اقتدار سے باہر کر دیا تھا۔ پھر یہ وہی خاندان ہے جو ہندتوا سیاست کا دشمن ہے۔ یہی سبب ہے کہ گاندھی خاندان ہر وقت سنگھ اور بی جے پی کے نشانے پر رہتا ہے۔ کوشش اس بات کی ہے کہ اس خاندان کی ساکھ مٹا دو۔ اگر تمام تر کوششوں کے باوجود اس خاندان کے افراد بی جے پی کی مخالفت میں کھڑے رہیں تو ان کو ذہنی تکلیف میں مبتلا کر ان کو سیاست سے باہر جانے پر مجبور کر دو۔ لیکن یہ خاندان وہ ہے کہ جو جان تو دینا جانتا ہے لیکن اصولوں سے سمجھوتا نہیں کرتا۔ بس اس بات کا ڈر ہے تبھی تو کبھی ای ڈی اور کبھی اسمرتی ایرانی جیسوں کو گاندھی خاندان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈرا س بات کا بھی ہے کہ ایک دن اسی گاندھی خاندان کی قیادت میں اس ملک کے عوام کی وہ چپی ٹوٹ سکتی ہے جو ڈنڈے کے زور پر اس ملک پر مسلط کرا دی گئی ہے۔