آدھار کارڈ اور پاسپورٹ کو شہریت کا ثبوت قبول کرنے پر زور

   

ڈیٹینشن سنٹرس پر کروڑہا روپیوںکا خرچ، پروفیسر فیضان مصطفیٰ وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی کا لیکچر

حیدرآباد 5 جنوری (سیاست نیوز) اسٹیٹ آف دی سٹیزن کے عنوان پر منعقدہ لکچر سے خطاب کرتے ہوئے نلسا ر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے کہاکہ ہندوستان کا شمار دنیا کی عظیم جمہوریت میں ہوتاہے ،اس کی بنیادوں میںسکیولرزم ہے ‘ مگر افسوس کہ ہندوستان میں شہریت مذہب کی بنیاد پر فراہم کی جارہی ہے اور وہ بھی ان پڑوسی ممالک میںمظالم کاشکار لوگوں کو جہاں پر مذہب کی بنیاد پر شہریت کی فراہمی کا قانون قطعی نہیںہے۔ منتھن کے زیراہتمام اسٹیٹ آف دی سٹیزن پر منعقدہ لکچر سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ شہریت ترمیمی ایکٹ نہ صرف غیر آئینی ہے بلکہ دستور اصول ‘ آرٹیکل14اور 15کی کھلی خلاف ورزی بھی ہے۔محکمہ خارجہ پالیسی کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کو ہندوستان کا داخلی معاملہ قراردیا جارہا ہے ‘ وزرات داخلہ نے بھی اس کو داخلی معاملہ قراردیاہے مگر یہ ایک ایسا داخلی معاملہ ہے جس کے تحت غیرملکیوں کو شہریت دینے کی بات کی جارہی ہے ‘ جس سے حکومت کے منشاء اور مقصد میںصاف طور پر تضاد دیکھائی دے رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ جن تین پڑوسی ممالک پاکستان‘ افغانستان اور بنگلہ دیش میںمظالم کاشکار اقلیتوں کو شہریت دینے کی بات کی جارہی ہے ‘ وہ اسلامی جمہوریت کہلاتی ہیں مگر وہاں پر بھی مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا قانون نہیں بنایاگیا ہے اور ہندوستان میںمذہب کی بنیاد پر شہریت فراہم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ شہریت ترمیمی ایکٹ 2019کو روکنے کے متعلق سپریم کورٹ میںدائر تحریری درخواستوں کو رد کردئے جانے کی بات پر پروفیسر فیضان مصطفیٰ نے کہاکہ درخواستوں کو رد کرنے کی وجہہ حکومت ہند کی جانب سے دائر کردہ حلف نامہ ہے جس میںحکومت کی جانب سے یہ کہاگیا ہے کہ ابھی ان کے پاس شہر یت ترمیمی ایکٹ کے متعلق دستاویزات تیار نہیںہوئے ہیں، لہذا ایکٹ کو نافذ کرنے یا اس پر عمل کرنے کی صورت ہی ابھی پیدا نہیںہوئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کی عدالت میںنمائندگی اور حکمران پارٹی کے لیڈران کے بیانات میں بھی بڑا تضاد اس حساس معاملے میںدیکھنے کو مل رہا ہے۔ پروفیسر فیضان مصطفے ٰ نے مزیدکہاکہ انیس لاکھ لوگوں کے نام آسام این آرسی سے بیدخل کردئے گئے ہیں ۔انہوں نے مزیدکہاکہ ایک گھر میںاگر والد کا نام این آرسی میں شامل ہے تو بچوں کا نام نکال دیاگیا ہے ۔ بیوی کانام ہے تو شوہر کے نام کو ہٹادیاگیاہے ۔ انتہا تو یہ ہوگئی ہے کہ ثناء اللہ نامی آرمی آفیسر کا نام جنھوںنے کارگل میں ملک کے لئے اپنی خدمات انجام دئے ہیں‘ این آرسی میںان کا نام شامل نہیں ہونے کی وجہہ سے تحویلی کیمپ( ڈیٹینشن کیمپ) میںبھیج دیاگیاتھا جس کو سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد راحت ملی ہے۔انہوںنے دہلی کے شاہین باغ میںپچھلے بیس دنوں سے جاری احتجاج کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ اب تک کی سب سے شدید سردی میں80سالہ خاتون اپنے بنیادی حق کا استعمال کرتے ہوئے سڑک پر ہے۔ ایسے کئی مظاہرین ہیںجو اپنی شہریت کا دعوی پیش کررہے ہیں اور جمہوریت کی بقاء کے لئے اپنی جدوجہد کا اعلان کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیںشہریت کا نہیںبلکہ بے روزگاری کا رجسٹر تشکیل دیاجائے ۔انہوں نے کہاکہ آسام میں1926کے دستاویزات کے حامل افراد کو بھی این آرسی سے بیدخل کردیاگیاہے ۔ انہوں نے مزیدکہاکہ نا تجربہ کار لوگوں کو غیر ملکی ٹربیونل کی ذمہ داریاں تفویض کی گئی جنھوں نے بے ترتیبی کے ساتھ نام کو خار ج کیاہے۔ انہوں نے ٹھیک اسی طرح ٹی این سیشن جب چیف الیکشن کمشنر تھے تب انہوں نے آسام میں نا تجربہ کار عملے کو اسبات کااختیار دے دیاتھا کہ جن لوگوں پر انہیںشبہ ہے وہ انہیںمشکوک ووٹرس کے زمرے میں شامل کردیں ‘ اور اس وقت کے عملے نے اپنے اختیار ات کا ناجائزہ فائدہ اٹھاتے ہوئے بے ترتیبی کیساتھ مشکوک ووٹرس کی ایک طویل فہرست تیار کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے حالیہ این آرسی میں وہ تمام مشکوک ووٹرس این آرسی کی قطعی فہرست سے باہر ہوگئے۔انہوں نے کہاکہ آسام این آرسی کی قطعی فہرست جاری ہونے کے بعد حکومت نے آسام کے عوام سے اعتراضات مانگے تھے اور اب تک تین لاکھ سے زائد اعتراضات داخل کردئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آسام میںاین آرسی کی مشق کوپورا کرنے کے لئے 16ہزار کروڑ کا خرچ آیاہے اور اگر یہی این آرسی سارے ملک میںکی جائے تو اس کا چالیس گنا زیادہ خرچ اس پر ہوگا جبکہ ملک سخت گیر معاشی بحران سے گذررہا ہے اور ایسے میںاین آرسی پر ایک اندازے کے مطابق64ہزار کروڑ کا بوجھ ناسمجھی کی حرکت ہی ہوگی۔انہوں نے کہاکہ آسام میں کئی ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جس کو پڑھ کر یا سن پر یقینا سب حیرت زدہ ہوجائیں گے۔انہوں نے اس موقع پر ایک ہندو جوڑے کی مثال پیش کی جو اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہوگیا مگر اس کاخمیازہ ایک مسلم عورت کو بھگتنا پڑا جس کا نام بناء کسی غلطی کے این آرسی کی فہرست سے نکال دیاگیاہے۔حکومت نے آدھار کارڈ ‘ پاسپورٹ جیسے دستاویزات کو تسلیم کرنے سے انکارکردیاہے ۔ حالانکہ ہم ساری دنیامیں پاسپورٹ کے ذریعہ اپنی شہریت بتاتے ہیںمگر اسی پاسپورٹ کو شہریت کے طور پر تسلیم کرنے سے ہمارے ملک نے انکار کردیاہے۔انہوں نے کہاکہ امید ہے کہ حکومت ان تمام چیزوں کومد نظر رکھتے ہوئے کوئی ایسا قدم اٹھائے گی جو نہ صرف ملک بلکہ عوام کے مفاد میںرہے ۔