عبد الباری مسعود
دنیا کے مختلف علاقوں میں مذہبی مقامات پر حملوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اقوام متحدہ نے جمعرات کو متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی جس کے ذریعہ رکن ممالک سے کہا گیا کہ وہ مذہبی مقامات کا تحفظ کریں اور تمام سطحوں پر رواداری امن و امان کے کلچر کو فروغ دیں ۔ قرارداد کے ذریعہ سکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے کہاگیا کہ وہ اس موضوع پر عالمی کانفرنس طلب کریں ۔
واضح رہے کہ اس قرارداد کو سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات (یو اے ای ) پاکستان اور آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کے دیگر کئی ممالک نے اسپانسر کیا تھا ۔ اقوام متحدہ میں منظور کی گئی اس قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ ہم دنیا بھر میںپرتشدد کارروائیوں اور مذہبی مقامات کی تباہی و بے حرمتی کی مذمت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی کسی بھی مذہبی مقامات کوزبردستی دوسرے مذہبی مقامات میں تبدیل کرنے کے کسی بھی اقوام کی اس قرارداد میں مذمت کی گئی ۔
مسودہ قرارداد کو جس کا عنوان ’’مذہبی مقامات کے تحفظ کے لئے امن و رواداری کے کلچر کا فروغ ہے ‘‘ اقوام متحدہ میں پیش کرتے ہوئے سعودی عرب کے نمائندہ کا کہنا تھا کہ ہم تمام مذہبی مقامات اور علاقوں کے خلاف جرائم اور ان کی تضحیک کی مذمت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی تشدد کو مسترد کرتے ہیں کیونکہ اکثر یہی دیکھا جا رہے کہ آج کل انتہاپسندی اور عدم رواداری بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے ۔ ان حالات میں بناء کسی خوف و خطرہ کے اپنی رائے کا اظہار کرنا ضروری ہے تاہم اظہار خیال کی آزادی کے نام پر ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے دوسروں کی دل آزاری ہو ۔
یہاں ایک بات ضرورکہنا چاہوں گا کہ اس مسودہ قرارداد کی تیاری اور اس کے حق میں راہ ہموار کرنے کے لئے کئی ماہ تک محنت کی گئی کیونکہ اس کے لئے تمام فریقین میں اتفاق پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے نمائندہ کا یہ بھی کہنا تھاکہ اس کے معاون اپسانسرس مذہبی آزادی کے عقیدہ کی آزادی اور اظہار رائے و اظہار خیال کی آزادی کی تائید میں کھڑے ہیں ۔ سعودی نمائندہ کے مطابق تمام ملکوں کو باہمی احترام اور مذاکرات کے سلسلہ کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے ۔ قرارداد میں نسلی و مذہبی عدم رواداری اور اسٹریو ٹائپنگ کے بڑھتے رجحان پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے قومی نسلی یا مذہبی نفرت سے متعلق کسی بھی قسم کی وکالت کی مذمت کی ہے ۔ قرارداد میں یہ بھی کہا گیا کہ دنیا کو امتیاز تعصب و جانبداری دشمنی و عداوت یا تشدد کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا اور اس کی مذمت کرنا ضروری ہے ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے اپنے رکن ممالک پر زور دیا کہ اس قسم کے واقعات کے انسداد کے لئے موثر اقدامات کرے ۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس قرار داد پر ہندوستان اور پاکستان کی رائے تقسیم رہی اور دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ آگئے۔ ہندوستانی نمائندہ نے یہ کہتے ہوئے پاکستان پر شدید تنقید کی کہ وہاں ایک ہندو مندر کے انہدام کے ہفتوں بعد قرارداد پیش کرنے وہ آگے آیا اور معاون اسپانسر کے طور پر خود کو سامنے رکھا ‘ ہندوستانی نمائندہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ قرارداد پاکستان کو اپنے حرکات و افعال چھپانے کے لئے ڈھال نہیں بن سکتی اور پاکستان اپنے عیب اس قرارداد کے پیش کرنے میں تعاون کرتے ہوئے چھپا نہیں سکتا ۔ ہندوستانی نمائندہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہندوستان ایک ہمہ تہذیبی ملک ہے۔ اور ہندوستان نے ہمیشہ تمام شہریوں کے مذہبی اور تہذیبی حقوق کا تحفظ کیا ۔ اس کے ساتھ ہی مذہبی مقامات ‘ عبادتگاہوں کے تحفظ کو یقینی بنایا ۔ آج کی دنیا میں مذہبی اور تہذیبی مقامات تشدد پسند انتہا پسندوں کے نشانوں پر ہیں اور یہ حال میں پاکستانی صوبہ خبیر پتخونخواہ میں دیکھا گیا جہاں ایک ہندو مندر کو نذرآتش کیا گیا جبکہ پاکستانی حکام بت بنے بیٹھے تھے ۔ مذہبی مقامات پر حملوں کے خلاف قوانین کے چنندہ نفاذ کے خلاف متنبہ کرتے ہوئے ہندوستانی نمائندوں کا پزورانداز میں کہنا تھا کہ جب تک قوانین کا چنندہ نفاذ عمل میں لایا جائے گا ‘ تب تک دنیا امن کا حقیقی کلچر حاصل نہیں کر پائے گی ۔ ہندوستانی نمائندہ نے اس طرح کی قرارداد پیش کرنے میں پاکستان کے تعاون پر حیرت و استعجاب کا اظہار کیا ۔
جواب میں پاکستانی نمائندہ نے ہندوستانی نمائندہ کی جانب سے ان کے ملک کے خلاف کئے گئے غیر ضروری بیانات کو پرزور انداز میں مسترد کر دیا ‘ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان پاکستان کے خلاف اس طرح کی بیان بازی کرتا رہا ہے ۔ حالانکہ حقیقت میں یہ وہی ہندوستان ہے جو کوویڈ۔ 19 کے پھیلاؤ کے لئے مسلمانوں کو ذمہ دار قرار دیتا ہے ۔ مسلمانوں کے خلاف خود ساختہ لو جہاد کے نام پر لوگوں کو اکساتا ہے اور معصوم کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کا ارتکاب کرتا ہے ۔
ہندوستان اقلیتوںکے خلاف امتیازی رویہ برتنے والا ایک سرفہرست ملک ہے اور ان حالات میں ہندوستان کو دوسرے ملکوں پر تنقید کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ پاکستانی نمائندہ نے اپنے جواب میں بتایا کہ صوبہ خبیر پختونخواہ میں ایک مندر پر حملہ کے بعد خاطیوں کے خلاف فوری طور پر سخت اقدامات کئے گئے ۔
دوسری طرف مراقش کے نمائندہ نے حال ہی میں مختلف ملکوں میں مساجد ‘ یہودی عبادتگاہوں اور مندروں پر کئے گئے حملوں پر روشنی ڈالی ان کے خیال میں اس طرح کی واقعات ہماری یادوں میں تازہ رہتے ہیں ۔ یادوں سے کبھی اوجھل نہیں ہوتے ۔ مراقشی نمائندہ نے اس برائی کے خاتمہ کے لئے مشترکہ عالمی کوشش و اقدامات کرنے پر زور دیا ۔ انہوں نے بھی کہا کہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کی یہ قرارداد رکن ممالک میں اس قسم کے مذموم حملوں کو روکنے سے متعلق صلاحیتوں میں بہتری لانے میں کافی اہمیت رکھتی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ قرارداد کی منظوری سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی براردری دنیا بھر میں مذہبی مقامات کے تحفظ کی پرزور تائید و حمایت کرتی ہے ۔ پرتگال کے نمائندہ نے بھی خطاب کرتے ہوئے یوروپی یونین اور دوسرے کئی ممالک کی جانب سے موقف کی وضاحت کی ۔ ان کے خیال میں یہ ملک آزادی اظہار خیال کی حمایت کرتے ہیں اور مذہبی آزادی کی تائید کرتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ نے ان اقدار کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔ انہوں نے اس ضمن میں پیش کردہ دو قراردادوں کا حوالہ دیا ہے جو مذبہی تعصب جانبداری سے مقابلہ کرنے کا مشورہ دیتی ہیں اور مذہبی بنیاد پر لوگوں کے خلاف تشدد کی مذمت کرتی ہیں ۔
اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں پیش کردہ قرارداد کی تائید کرتے ہوئے امریکی نمائندہ نے انصاف ‘ جمہوریت ‘ انسانی حقوق ‘ اور بنیادی آزادیوں کے اہم اقدار پر روشنی ڈالی اور تشدد کو مسترد کیا ۔ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے سکریٹری جنرل پر زور دیا کہ وہ اس سلسلہ میں ایک عالمی کانفرنس طلب کریں جس کا مقصد مذہبی مقامات کا تحفظ ہو اور اقوام متحدہ کے پلان آف ایکشن کو آگے بڑھاتا ہو ۔ اس میں حکومتوں ‘ سیاستدانوں ‘ مذہبی رہنماؤں ‘ مہذب ‘ سماج ‘ میڈیا اور دیگر کو شامل کیا جائے ۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کے خیال میں اقوام متحدہ کی قرارداد حکومتوں اور دائیں بازو کی طاقتوں کو متنبہ کرنا ہے۔ ویسے بھی آج ہندوستان میں آر ایس ایس کی حلیف طاقتیں ‘ متھرا میں شاہی عیدگاہ اور وارانسی میں گیان واپی مسجد کو شہید کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہ اُسی طرح وہاں مندر تعمیر کروانا چاہتے ہیں جیسے ان لوگوں نے ایودھیا میں 450 سالہ قدیم بابری مسجد شہید کی تھی ۔