عثمان شہید ایڈوکیٹ
پوجیئے موہن بھاگوت جی !
آداب عرض ہے !
میں دور دراز حیدرآباد میں رہنے والا حقیر فقیربالتقصیر آج بہت ہمت جٹاکر آپ سے مخاطب ہورہا ہوں ۔ ورنہ کہاں آفتاب اور کہاں ذرہ ٔ بے مقدار ۔ کہاں سمندر کی موجیں ‘ کہاں تالاب کی لہریں ‘ آپ آر ایس ایس کے چیف ایک ہندوؤں کی بڑی جماعت کے سربراہ ‘ پولیس آپ کی ‘ فوج آپ کی ‘ نظم و نسق آپ کا ‘ عدالت پر آپ کا اثر ۔ انصاف آپ کے زیر تسلط ۔
آج ہندوستان کے حالات بہت بدترین ہوچکے ہیں ۔ فرقہ پرستی کی آندھی چل رہی ہے ۔ نفرت کا زہر پھیلایا جارہا ہے ۔ ہندومسلمان دور ہوتے جارہے ہیں ۔ دلوں میں کدورت جنم لے رہی ہے ۔ ہرایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ گھر سے نکلتے ہیں تو واپسی کی فکر لاحق ہوتی ہے ۔ کسی بھی معمولی تکرار پر فساد پھوٹ پڑتاہے ۔ مارنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ مارکھانے والا بھارت کا سپوت ہے ۔ اسی وطن کا لعل ہے ۔ اسی و طن کا پھول ہے ۔ منٹوں میں اس کی زندگی موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے ۔ ایک عورت بیوہ ہوجاتی ہے ۔ اس کی خوشیوں پر اوس پڑجاتی ہے ۔ ایک معصوم کلی یتیم بن جاتی ہے ۔ ایک بچہ باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک بہن بھائی سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوجاتی ہے ۔ ایک خاندان بے سہارا ہوجاتا ہے۔ ضعیف ماں باپ اپنی لاٹھی سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ تجارت کے مراکز نذر آتش ہوجاتے ہیں ۔کھیتیاں اُجڑ جاتی ہیں۔مکان جل جاتے ہیں۔ کس کے ؟ہم ہندوستانیوں کے ۔ عمر بھر کی کمائی منٹوں میں خاک کی نذر ہوجاتی ہے ۔ شہر کے شہر گجرات بن جاتے ہیں۔ کسی نے حملہ کرتے وقت سوچا کہ ہم نقصان کس کو پہونچا رہے ہیں ۔اپنے بھائی کو ۔ کس کی عزت لوٹ رہے ہیں ۔اپنی بہن کی ؟ کس کو قتل کررہے ہیں۔اپنے بیٹے کو ؟ کس کا حمل ساخت کررہے ہیں ؟ اپنی بہن کا ۔کس کا بچہ نیزے پر اُٹھارہے ہیں ؟ اپنے ہی بچے کو
گجرات میں بڑودہ کے مقام پر ایک باپ کو درخت سے باندھ کر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی بیٹی کی عصمت ریزی کی گئی ۔ یہ کارنامہ پولیس والوں نے انجام دیا ۔ اندرا گاندھی کا دورتھا ۔ مودی کے وقت تین دن تک پولیس کو اندھا ‘بہرا اور گونگا کردیا گیا ۔ ہزاروں کی تعداد میں مسلمان مردعورت اور بچے شہید کردیئے گئے ۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا ۔ کسی کے آنکھ سے آنسو نہیں نکلا ۔ کسی کا کلیجہ منہ کو نہیں آیا ۔ کسی کا دل پھٹ نہیں پڑا ۔ بتاؤ مرنے والے کون تھے … ؟ ہندو یا مسلمان ! مسلمان نہیں وہ اسی وطن کے لعل تھے ۔ ان میں سے کوئی گاندھی اور نہرو کوئی سردار پٹیل ہوسکتا تھا ع
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں
آپ نے اخبارات میں پڑھا ہوگا آسام میں نیلی کے مقام پر چالیس ہزار مسلم بچوں کو قتل کیا گیا ۔ لوگ کہتے ہیں آپ ہی کی جماعت کے لوگ تھے۔جمشید پور ‘ بھیونڈی (مہاراشٹرا) میں سینکڑوں کارخانوں ‘ مکانوں میں لوگوں کو زندہ جلادیا گیا ۔ بھاگلپور (بہار)میں ہزاروں مسلمانوں کو زندہ درگور کردیا گیا اور اُن کو قبروں پر پودے لگادیئے گئے ۔ کہاں تک گنوائیں ع
جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا
یقینا ہندوستانی مسلمان حملہ آور کی حیثیت سے آئے تھے لیکن انہوں نے ہندوستان کو اپناوطن بنالیا۔ ایک قافلہ کیرالاکے ساحل پر زیارت کے لئے اترا تھا ۔ مسلمانوں نے ہندوستان کو اپنی کالونی نہیں بنایا ۔ اُلٹا انہوں نے ہندوستان کو دلہن کی طرح سجادیا۔ گلشن بنائے ۔ گلستاں بنائے ۔ درخت لگائے ۔ عمارتیں بنوائیں ۔ مینار کھڑے کئے ۔ محل بنوائے ۔ عبادت گاہیں بنوائیں ۔ کسی بھی مندر کو تباہ نہیں کیا ۔ کسی بھی پجاری کا قتل نہیں کیا ۔ کیا کسی مؤرخ نے ایسا الزام ہمارے سرپر تھوپاکہ اپنے اقتدار کے نشے میں چور ہوکر اکثریت کے ساتھ ایسا بہیمانہ سلوک کیا ۔ پروفیسر تارا چند مشہور مؤرخ ‘ پروفیسر اے این یو شاستری ‘ پرو فیسر آرنالڈ ‘ پروفیسر ہنٹر ‘ مشہور اسلام دشمن مؤرخ گبن ‘ کسی بھی مصنف کی تصنیف اٹھاکر دیکھ لیجئے کسی نے بھی مغلیہ سلطنت ‘ آصف جاہی حکومت ‘ قطب شاہی خاندان ‘ بہمن شاہی دور پر ایسا کوئی دھبہ نہیں لگایا کہ جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ مسلمانوں نے کبھی کسی وقت کسی مقام پر فرقہ پرستی کا مظاہرہ کیا ۔ آپ کو شاید تاریخی جدوجہد آزادی یاد ہوگی۔ جب ہندواور مسلمانوں نے مل جل کر انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑی تھی ۔ کسی نے نہیں کہا کہ میں مسلمانوں ہوں اس دیش سے میرا کیا لینا دینا ۔ میں کیوں قربانی دوں ۔ نہ ہندوؤں نے سوچا ۔ جلیان والا باغ کا واقعہ آپ کو یاد ہوگا ۔ کیسے ہمارے بزرگوں نے جان کی قربانی دیش کے لئے دی ۔ جنرل ڈائر کی گولیوں کا سینہ تان کر مقابلہ کیا تھا ۔ صرف آزادی کی دلہن کو بیاہ کر لانے کیلئے ۔ کیا کبھی کسی مذہبی مقام کو ڈھایا؟ کیاقتل عام ہوئے ؟ ریپ کا کوئی واقعہ ہوا ؟ حکومت ہماری ‘ اقتدار ہمارا ‘ سیاہ سفیدکے مالک ہم ‘ پرچم ہمارا لیکن فساد کہیں نہیں ہوا ۔ ہندومسلمان شیر و شکر کی طرح مل جل کر رہتے تھے ۔ ٹھاکر اور خان صاحب مل کر ہولی کھیلتے تھے ۔ خان صاحب شیر خورما تقسیم کرتے تھے ۔ اور ہولی میں ایک دوسرے پر رنگ ڈالتے تھے ۔ شب برات میں پٹاخے چھوڑتے تھے ۔ کیا دن تھے وہ بھی ۔
مجھے یاد ہے سب ذرا ذراتمہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو
آزادیٔ ہند کی تاریخ گواہ ہے کہ مولانا آزاد نے اپنی بیوی کے انتقال پر دیدار تک نہیں کیا ۔ اسی طرح مولانا حسرت موہانی نے اپنی بچی کی میت کو کاندھا تک نہیں دیا ۔ یہ سب کچھ وطن عزیز کی محبت کی خاطر کیا ۔ ہزاروں مولوی ‘ علماء یا تو کالے پانی کی سزا کاٹی یا پھانسی پر چڑھ گئے ۔ بہادر شاہ ظفر کو ناشتے میںاپنے ہی شہزادوں کے کٹے سر ملے ۔ افسوس نہ کیا۔ قائد ملت بہادر یارجنگ کے بھانجوں کا قتل کیا گیا ۔ بادشاہ ہمارا ‘ حکومت ہماری ‘ عدالت پر ہمارا قبضہ ‘ پولیس ہماری لیکن بہادریارجنگ نے منٹوںمیںتلواروں سے لیس غصے میں بھپرے ہوئے مجموعے کو چند جملوں میں ٹھنڈا کردیا ۔ شریمتی سروجنی نائیڈو جو اس واقعہ کی عینی شاہد تھیں انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی جوش میں بے قابو مجموعے کو یوں ہوش میں آتے نہیں دیکھا ۔ رانی کر ناوتی پر بہادر شاہ روہیلے نے حملہ کیا وہ مسلمان تھا ۔ اس کا مقابلہ کسی راجہ مہاراجہ نے نہیں کیا بلکہ ایک مسلم بادشاہ ہمایوں نے اس کو شکست دی اور راکھی کی لاج رکھ لی ۔ آج بھی مسلمان سب کچھ بھول بھال کر خون کا عطیہ دیتا ہے ۔ ہندولاشوں کو شمشان گھاٹ پہونچاتا ہے ۔ پانی میں گری ہوئی گائے کو جان پر کھیل کر باہرنکالتا ہے ۔ سب کو بھول جائیے ۔ ماضی قریب ماضی بعید کی کوئی بات یاد نہ رکھئے ۔ آئیے ہم اور آپ مل کر ہندوستان کی ترقی کے لئے یک جٹ ہوجائیں ۔یہ فرضی من گھڑت واقعات جو بابوراؤ پٹیل اور پروفیسراوک نے لکھا ہے من گھڑت بے بنیاد اور جھوٹے ہیں تاکہ فرقہ پرستی کو ہوا دی جائے ۔ بالآخر کرسیٔ اقتدار پر ہندوؤں کا قبضہ ہوجائے ۔ الیکشن لڑیئے ضرور لڑیئے۔ ترقی کو موضوع بحث بنائیے۔ بیروزگاری دور کرنا ہے ۔ ہندوستان کوایٹمی پاور بنا نا ہے ۔ ہندوستان کو پھر سے جنت نشان بنانا ہے ع
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
دل صاف کرلیجئے ۔ آپ بڑے بھائی ہیں ۔ہم کو سینے سے لگالیجئے؎
دل تو کیا چیز ہے ہم روح میں اترے ہوتے
تم نے چاہا ہی نہیں چاہنے والوں کی طرح
اقبال کا ترانہ پڑھئے؎
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
اندرا گاندھی کے پوچھنے پر کہ چاند سے دنیا کیسی نظر آرہی ہے ہمارے خلا باز راکیش شرما نے یہ کہنے سے نہیں چوکا ؎
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
آئیے ! ایک بار پھر ہندوستان کو سارے جہاں سے اچھا بنائیں ۔