اپنے بازار کا معیار سنبھالو پہلے

   

افغانستان سے احسان کا رشتہ … پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت
مسلمان ہجومی تشدد کا نشانہ … دو ہفتے میں تین واقعات

رشیدالدین
کسی بھی ملک کی ترقی ، خوشحالی اور استحکام میں پڑوسیوں سے خوشگوار روابط کا اہم دخل ہوتا ہے ۔ یہ اسی وقت ممکن ہے ، جب ملک کی خارجہ پالیسی قومی مفادات کے عین مطابق ہو۔ ہندوستان جو کبھی غیر جانبدار تحریک کے بانیوں میں تھا اور ساؤتھ ایشین ممالک میں علاقائی تعاون کے لئے سارک کے قیام میں اہم رول ادا کرچکا ہے ، آج اپنے پڑوسیوں میں الگ تھلگ پڑچکا ہے۔ ہندوستان کبھی دنیا بھر کیلئے قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ممالک میں شامل تھا کیونکہ ملک کی قیادت اور اس کی خارجہ پالیسی دنیا بھر کیلئے متاثر کن تھی لیکن گزشتہ 7 برسوں میں دور اندیش قیادت اور قومی مفادات کے مطابق خارجہ پالیسی کی کمی کے نتیجہ میں ہندوستان اپنے دوستوں کے درمیان بھی اجنبی اور تنہا دکھائی دے رہا ہے۔ ہندوستان اپنی طاقت اور صلاحیت کے اعتبار سے ان عالمی طاقتوں سے کم نہیں جو سوپر پاور سمجھے جاتے ہیں لیکن ہندوستان نے اپنی علحدہ شناخت اور دنیا بھر سے برابری کا رشتہ رکھنے کے بجائے امریکہ کو اپنا مائی باپ قبول کرلیا جس کے نتیجہ میں دیرینہ دوست بھی بیگانے اور کل کے ہمدرد آج کے اجنبی بن گئے ۔ جن ممالک سے ہماری سرحدیں ملتی ہیں، ان کی پرواہ کئے بغیر ہم نے ان پر بھروسہ کیا جو کبھی بھی کسی کے نہیں ہوئے ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’’جن پر بھروسہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ کے مصداق امریکہ نے ہندوستان کو افغانستان کے بیچ مجھدار میں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کی ۔ امریکہ نے افغانستان کی تعمیر نو میں ہندوستان کو مشغول کرتے ہوئے 500 سے زائد پراجکٹس پر ہزاروں کروڑ خرچ کرائے۔ ہندوستان نے دوستی کی خاطر اپنے عوام کی حصہ کی رقم افغانستان میں خرچ کی اور ایک خوبصورت پارلیمنٹ کی عمارت کا تحفہ پیش کیا لیکن جب برا وقت آیا تو ہندوستان کو اعتماد میں لئے بغیر امریکہ نے افغانستان سے تخلیہ کردیا ۔ افغانستان کے تجربہ کے بعد ہندوستان کو اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرتے ہوئے دوست اور دشمن کی پہچان کرنی چاہئے ۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کو لڑاکر اپنی مفادات کی تکمیل کرنے والی طاقت وہی ہے جس نے افغانستان میں ہندوستان کو اپنی مدد آپ کرنے کیلئے چھوڑ دیا ہے۔ آزادانہ خارجہ پالیسی کی کمی کے نتیجہ میں پڑوسی بھی ہم سے دور ہوگئے ۔ سوائے مالدیپ کے کوئی بھی ہندوستان کا دوست نہیں رہا ۔ برے وقت میں آخر کار ایک مسلم ملک نے ہی ہندوستان کو سہارا دیا جس کا احساس مودی حکومت کو ہونا چاہئے جو ملک میں نفرت کے ایجنڈہ پر کاربند ہیں۔ افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ہندوستان امید اور اندیشوں کے درمیان گھر چکا ہے ۔ مودی حکومت یہ طئے نہیں کر پارہی ہے کہ طالبان کو قبول کرے یا نہیں۔ مبصرین کے مطابق طالبان سے بات چیت میں اہم رکاوٹ بی جے پی کی جارحانہ فرقہ پرست پالیسی ہے جس کے ذریعہ اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں کو متحد کیا جاتا ہے ۔ اگر طالبان سے بات چیت کی جائے تو ووٹ بینک بکھر سکتا ہے ، لہذا مخالف طالبان موقف بی جے پی کی سیاسی مجبوری ہے۔ افغانستان کی صورتحال پر مرکزی حکومت نے کل جماعتی اجلاس طلب کرتے ہوئے 31 سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ملک اور قوم کو کوئی بحران آ گھیرے تو ہر ہندوستانی کو متحد کھڑا ہونا چاہئے ۔ ٹھیک اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے بھی افغاستان سے ہندوستانیوں کے انخلا کی تائید کی اور صورتحال پر گہری نظر رکھنے مشورہ دیا۔ ایک خاتون رکن پارلیمنٹ کسی طرح ہندوستان پہنچ گئی تھی لیکن حکومت نے مخالف طالبان پالیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ کو پناہ دینے کے بجائے جبراً واپس بھیج دیا ۔ گزشتہ 20 برسوں میں دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہندوستان کا افغانستان سے گہرا تعلق اور رشتہ رہا ہے۔ امریکہ اور اس کے حلیفوں نے فوجی اعتبار سے مداخلت کی جبکہ ہندوستان کا رشتہ ترقی اور خوشحالی کا ہے ۔ جنگ زدہ تباہ حال ملک کی بازآبادکاری اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ہندوستان کے رول کو کوئی بھی افغانی فراموش نہیں کرسکتا۔ 500 سے زائد پراجکٹس جن میں سڑک ، پانی ، بجلی ، مواصلات اور دیگر عام آدمی کی ضروریات کے امور کی تکمیل کے ذریعہ ہندوستان نے ہر افغانی کے دل میں جگہ بنالی ہے ۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکہ اور حلیفوں نے بمباری کے ذریعہ جو تباہی مچائی تھی ، ہندوستان نے تباہی کو تعمیر کے ذریعہ ترقی میں تبدیل کیا ۔ ظاہر ہے کہ عوام تخریب کے برخلاف تعمیر کرنے والوں کو ہی پسند کریں گے۔ اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود افغانی عوام سے ہندوستان کی دوری ناقابل فہم ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ تعمیر نو کی 20 سالہ طویل وابستگی کی بنیاد پر ہندوستان کو عجلت میں سفارت کاروں اور اپنے شہریوں کی واپسی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں، اسی طرح افغان حکومت کی تبدیلی کے طور پر صورتحال سے نمٹنا چاہئے ۔ طالبان نے بھی ہندوستان کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جنگ سے تباہ حال ملک میں جو بھی انفراسٹرکچر موجود ہے ، وہ ہندوستان کی دین ہے۔ افغانستان سے ہندوستان کا رشتہ احسان اور ہمدردی کا ہے ، لہذا مکمل لاتعلق اور قطع تعلق کے بجائے مذاکرات کے امکانات تلاش کرنے چاہئے۔ ہندوستان کے بارے میں طالبان میں عداوت اور دشمنی کا جذبہ اس لئے بھی پیدا نہیں ہوسکتا کیونکہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کا ہندوستان کبھی بھی فریق نہیں رہا۔ قطع تعلق کا مطلب طالبان کو پاکستان کے خلاف کرنے کے مترادف ہوگا جس کا فائدہ پاکستان اٹھا سکتا ہے ۔ جس طرح دیگر ممالک طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں ، ہندوستان کو بھی خطہ میں الگ تھلگ رہنے کے بجائے افغان عوام کی ہمدردی میں اپنی شرائط پر بات چیت کرنا ہوگا تاکہ دوسروں کو صورتحال کا فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔
مثل مشہور ہے کہ باہر سے پہلے گھر میں روشنی کی جائے۔ مطلب یہ ہے کہ گھر کے لوگ پریشان ہوں اور گھر کا مکھیا اگر باہر والوں کی فکر کرے تو یہ انصاف نہیں کہلاتا۔ ملک کے پردھان سیوک اور چوکیدار نے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ لگایا تھا لیکن نعرہ محض ایک جملہ بن چکا ہے جس طرح کالا دھن واپس لانے کے بعد ہر شہری کو 15 لاکھ روپئے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا ۔ ہندوستان کے کئی حصوں میں مسلمانوں سے نفرت اور حملوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ بظاہر ہجومی تشدد کے واقعات میں کمی دکھائی دے رہی ہے لیکن 7 برسوں میں بی جے پی نے جو زہر گھولا ہے ، اس کا اظہار وقتاً فوقتاً دیکھنے کو مل رہا ہے۔ گزشتہ 15 دنوں میں ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے تین واقعات پیش آئے ۔ کانپور میں ایک کمسن لڑکی اپنے والد کے بچاؤ کے لئے حملہ آوروںکے آگے ہاتھ جوڑتی رہی لیکن ظالموں کو کمسن پر رحم نہیں آیا اور وہ بیٹی کے سامنے باپ کی بے رحمی سے پٹائی کرتے ہوئے متنازعہ نعرہ لگانے پر اصرار کر رہے تھے ۔ اسی طرح راجستھان کے اجمیر اور مدھیہ پردیش کے اندور میں مسلمانوں کو ہجوم نے بری طرح زد و کوب کیا اور اگر بیچ بچاؤ نہ ہوتا تو شائد دونوں زندہ نہ ہوتے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ اکثریتی طبقہ کے علاقہ میں کسی مسلمان کا داخلہ تک برداشت نہیں ہورہا ہے ۔ اترپردیش ، مدھیہ پردیش اور راجستھان میں پیش آئے تینوں واقعات کے ملزمین کے ساتھ پولیس کا رویہ توقع کے عین مطابق ہمدردانہ رہا ۔ حملہ آوروں کے خلاف ثبوت کے باوجود انہیں معمولی دفعات کے تحت عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ان کی فوری ضمانت بھی ہوگئی ۔ کسی مسلمان پر حملہ کرنا ہو تو اس پر چھیڑ چھاڑ ، گائے کو لے جانے یا گھر میں بیف رکھنے جیسے الزامات عائد کردیئے جاتے ہیں اور پولیس کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ الزامات کی جانچ کرے۔ ہندوستان کے پردھان سیوک کو افغانستان کے عوام کی فکر ہے لیکن انہیں اندور ، کانپور اور اجمیر کے ان مسلمانوں کی کوئی پرواہ نہیں جو فرقہ پرستوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنے۔ دنیا کے دیگر ممالک کے عوام سے ہمدردی سے پہلے مودی کو اپنے عوام کے تحفظ پر توجہ دینی چاہئے ۔ جب چراغ تلے اندھیرا ہو تو پھر دنیا بھر میں ہندوستان کی آواز نقار خانہ میں طوطی کی آواز تصور ہوگی۔ کوئی بھی ہندوستان کی ہمدردی پر اس لئے بھی بھروسہ نہیں کرے گا کیونکہ اندرون ملک بی جے پی حکومت کا ریکارڈ ٹھیک نہیں ہے۔ جہدکاروں اور بعض سماجی کارکنوں نے جب طالبان کی دہشت گردی سے ہندوستان کے جارحانہ فرقہ پرست حملہ آوروں کا تقابل کیا تو ان کے خلاف ملک سے غداری کے مقدمات درج کئے گئے ۔ نامور شاعر منور رانا بھی مقدمہ سے بچ نہیں سکے کیونکہ انہوں نے طالبان کے تشدد سے پہلے ہندوستان میں تشدد کی روک تھام کا مشورہ دیا تھا۔ تشدد طالبان کرے یا پھر سنگھ پریوار دونوں میں امتیاز کیوں ؟ مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی مخالفت اور ہجومی تشدد کے واقعات کو جاری رکھتے ہوئے بی جے پی اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں انتخابات کا سامنا کرے گی۔ ہجومی تشدد کا مقصد دراصل مسلمانوںکے حوصلوںکو پست کرنا ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوںکی کوئی ایسی مضبوط قیادت بھی نہیں ہے جو ظالموں کا ہاتھ پکڑنا توکجا مظلوموں کو سہارا دے سکے اور انہیں انصاف دلاسکے۔ ملک میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانا ملک سے غداری تصور کیا جارہا ہے ۔ ممتاز شاعر ڈاکٹر وسیم بریلوی نے کیا خوب کہا ہے ؎
اپنے بازار کا معیار سنبھالو پہلے
بعد میں پوچھنا مجھ سے مری قیمت کیا ہے