روش کمار
بیورو کریسی میں اپنے ہم خیال عناصر کی شمولیت کے ذریعہ اپنے ایجنڈہ کو آگے بڑھانے کا بی جے پی پر اپوزیشن نے بار بار الزام عائد کیا اور ثبوت کے طور پر ایسے عہدہ داروں کے نام بھی پیش کئے جن کی خدمات میں متعدد مرتبہ توسیع کی گئی اور ان میں کئی ایسے عہدہ دار بھی ہیں جو برسوں سے ایک ہی ریاست میں اپنی سبکدوشی کے باوجود خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بی جے پی پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ سنگھی ذہنیت کے حامل لوگوں کو اہم عہدوں پر فائز کرتی ہے اور وہ حکومت کے اشاروں پر، اور حکومت آر ایس ایس کے اشاروں پر کام کرتے ہوئے نہ صرف قابل ترین لوگوں کو اہم محکمہ جات سے دور رکھتی ہیں بلکہ ایسے اقدامات کربیٹھتی ہیں جو ملک کے دستور اور ملک کی جمہوریت کے مغائر ہوتے ہیں۔ بہر حال فی الوقت مودی حکومت نے حسب عادت و حسب روایت اقدامات کرتے ہوئے ( عوام کی توجہ اصل مسائل سے ) ہٹا کر غیر ضروری مسائل کی جانب مبذول کروانے 24 مرکزی وزارتوں میں ڈپٹی سکریٹریز ، ڈائرکٹرس، ڈپٹی ڈائرکٹرس و دیگر اہم عہدوں پر Lateral Entry کے ذریعہ تقررات یا بھرتیاں کرنے کا فیصلہ کیا اور 40-45 جائیدادوں پر بھرتی کیلئے اشتہار بھی جاری کردیا لیکن اپوزیشن اس کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی اور مرکزی حکومت کی نیت اور اس کے ارادوں پر سوال اُٹھائے۔ تب حکومت نے مرکزی وزیر جتیندر سنگھ کے ذریعہ یونین پبلک سرویس کمیشن کے سربراہ کے نام ایک مکتوب روانہ کیا ہے، اس کیلئے کہا جاتا ہے کہ دفتر وزیراعظم سے ہدایات ملی تھیں کہ اس ضمن میں جو اشتہار جاری کیا گیا اسے کینسل یا منسوخ کردیا جائے۔
آپ کو بتادیں کہ Lateral انٹری سے اعلیٰ عہدہ دار ہٹانے سے متعلق اشتہار اب واپس ہوگیا ہے۔17 اگسٹ کو 45 عہدوں کیلئے یہ اشتہار جاری کیا گیا تھا اور پھر 20 اگسٹ یعنی اندرون 3 دن واپس لے لیا گیا ہے۔24 وزارتوں کے ڈپٹی سکریٹریز، ڈاکئرکٹرس اور ڈپٹی ڈائرکٹرس کے عہدوں کیلئے یہ اشتہار جاری کیا گیا تھا۔ 2016 میں ان ہی جتندر سنگھ نے بحیثیت مملکتی وزیر پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ بناء سیاسی اتفاق رائے سے یہ اسکیم نافذ نہیں کی جائے گی۔ 2024 میں سیاسی سطح پر مخالفت کی وجہ سے اس کے اشتہار کو واپس لینا پڑا لیکن یہ اسکیم ابھی واپس نہیں ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 2016 سے لیکر 2024 کے درمیان سیاسی اتفاق رائے بنانے کیلئے مودی حکومت نے کیا اقدامات کئے اور تحفظات کی یاد اب کیوں آئی؟
ہم یہ بھی بات کریں گے کہ کیا کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت میں Lateral Entry کا تقابل مودی حکومت کے Lateral Entry سے کیا جاسکتا ہے۔ 17 اگسٹ کو Lateral Entry کے اشتہار جاری کئے جانے کے ساتھ ہی INDIA بلاک میں شامل جماعتوں نے احتجاج شروع کردیا۔ اتحاد کے باہر کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی احتجاج کیا اور حکومت کے اندر سے بھی مخالفت کی گونج سنائی دی۔ تین دن کے اندر ہی آئی اے ایس عہدوں پر 45 لوگوں کو بازو سے داخل کروانے کا اشتہار اب بازو رکھ دیا گیا۔یہ تیسرا موقع ہے جب حکومت نے اپنے اس طرح کے قدم اُٹھائے ہیں اور واپس لئے ہیں جیسے وقف ترمیمی ایکٹ کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔ براڈ کاسٹنگ بل کا ڈرافٹ ( مسودہ ) کچھ لوگوں کو دے کر اب واپس منگوالیا گیا اور Lateral Entry کا اشتہار جاری کرکے واپس لے لیا گیا۔ اس واپسی کو بھارتی جمہوریت کیلئے ایک اچھے شگون کی شکل میں دیکھا جانا چاہیئے کہ اب مخالفت کی آواز سنائی بھی دیتی ہے اور حکومت تک پہنچ بھی جاتی ہے ، کس کی مخالفت کا اثر ہوا ہے یہ کہنا مشکل ہے کم سے کم ایک کی مخالفت کا اثر تو نہیں ہوا۔ ’ انڈین ایکسپریس‘ میں جنتا دل ( یو ) اور لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈروں کا بیان ہے، کے سی تیاگی نے کہا کہ یہ ہمارے لئے فکرمندی کی بات ہے، انہوں نے تحفظات کی بنیاد پر اس کی مخالفت کی اس سے پہلے حکومت کی ایک اور اتحادی جماعت کے لیڈر اور کابینی وزیر چراغ پاسوان نے بھی تحفظات کی بنیاد پر Lateral Entry کی مخالفت کی مگر چندرا بابو نائیڈو کی TDP نے اس کی تائید و حمایت کی۔ بی ایس پی کی سربراہ مایاوتی نے اس کی مخالفت کی۔
اپوزیشن خیمہ میں کانگریس صدر ملکارجن کھرگے، راہول گاندھی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو، آر جے ڈی کے تیجسوی یادو اور منوج جھا نے اس کی مخالفت کی ہے۔ آزاد سماج پارٹی کے رکن پارلیمنٹ چندر شیکھر آزاد راون نے بھی مخالفت کی ہے۔ سب کی مخالفت کی بنیاد یہی سمجھ آئی کہ اس میں تحفظات نہیں ہیں، تحفظات کو ختم کرنے کا یہ ایک نیا طریقہ ہوگیا ہے اس کے ذریعہ او بی سی، پسماندہ طبقات اور درج فہرست طبقات و قبائل کا حق مارا جارہا ہے۔ Lateral Entry کا اشتہار واپس لیا گیا ہے۔ راہول گاندھی نے لیٹرل انٹری کی مخالفت میں ٹوئیٹ کیا تب اس بات کو لیکر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا کہ ایس سی، ایس ٹی ذیلی زمرہ بندی پر ٹوئیٹ کیوں نہیں کرپارہے ہیں لیکن لیٹرل انٹری پر بیان دے رہے ہیں۔ یہی نہیں حکومت کی طرف سے اور حکومت کے حامیوں کی طرف سے ریسرچ کیا جانے لگا ہے کہ لیٹرل انٹری کی اسکیم تو کانگریس کے دور اقتدار میں آئی۔ سوشیل میڈیا پر ایک طبقہ حکومت کو بچانے میں مصروف ہوگیا اور اس کیلئے کانگریس کو قصوراوار بتانے میں کافی محنت کررہا تھا کہ تب ہی حکومت نے کانگریس کو ہی قصوروار بناتے ہوئے اپنا اشتہار واپس لے لیا اور حامیوں کی محنت پر پانی پھیر دیا۔
کانگریس لیڈر جئے رام رمیش نے ٹوئیٹ کیا کہ نوکر شاہی میں بڑے پیمانے پر لیٹرل انٹریز اسکیم کیلئے 19 اگسٹ تک مرکزی وزراء کی جانب سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ذمہ دار ٹہرایا جارہا تھا، کچھ مہربان تنقید کرنے والوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی ذمہ دار ٹہرادیا اور اب وہی وزیر اچانک پٹری سے اُتر گئے ہیں اور Non Biological وزیر اعظم کو سماجی انصاف کا حمایتی بتانے پر مجبور ہورہے ہیں جو کہ اب اور زیادے بے نقاب ہوچکے ہیں۔Hypo Cracy کی کوئی سرحد نہیں ہے، حد نہیں ہے۔ کانگریس کے ترجمان پون کھیرا کا اس بارے میں کہنا ہے کہ مرکزی حکومت اپوزیشن کے دباؤ میں آکر اپنے ہی اتحادی جماعتوں کے دباؤ میں آکر جو لیٹرل انٹری کا اشتہار تھا اسے واپس لینے کا یو پی ایس سی کو حکم دیا ہے، کانگریس اس کا خیرمقدم کرتی ہے اور وزیر اعظم کو نریندر مودی کو ایک مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے من کی بات سننا شروع کیجئے اور یہ ملک اپنے من کی بات اپوزیشن کے ذریعہ سے بولتا ہے۔ ملک اپنے من کی بات آپ کی اتحادی جماعتوں کے ذریعہ بولتا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ تو خیر اب نہیں بولتا لیکن ہم سب کی بات سنیئے اسی میں آپ کی بھلائی ہے، اب آپ کی عادت پڑ جانی چاہیئے، اب آپ اتحاد میں ہیں آپ بادشاہت دکھاکر جو من میں آئے وہ فیصلہ نہیں لے سکتے اس لئے اپنے اتحاد کی سن کر فیصلہ کیا کریں تاکہ وہ فیصلہ بار بار واپس لینا نہ پڑے۔
مودی حکومت کے مملکتی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے یو پی ایس سی کو مکتوب لکھ دیا اور ٹوئیٹ بھی کیا۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ لیٹرل انٹری کو 2005 کے انتظامی اصلاحات کمیشن میں منظوری دی گئی جس کے سربراہ ویرپا موئیلی تھے۔ 2013 کے چھٹویں پے کمیشن میں بھی اس بارے میں تجاویز پیش کی گئیں۔ دیکھئے حکومت کتنا پیچھے جاتی ہے اپنے کام کو درست ٹہرانے کیلئے یا اپنی غلطی پکڑے جانے پر ذمہ داری دوسروں کے سر تھوپنے کیلئے ، لیکن اس سے پہلے اور بعد میں کئی ہائی پروفائیل لوگوں کو لیٹرل انٹری کے ذریعہ بیورو کریسی میں شامل کروالیا گیا، یہ جتیندر سنگھ اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں۔ مکتوب میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ سابقہ حکومتوں میں کن عہدوں پر لیٹرل انٹری کے ذریعہ لوگوں کو فائز کیا گیا اور ان میں تحفظات پر عمل آوری نہیں کی گئی۔ سونیا گاندھی کی قیادت والے قومی مشاورتی کونسل میں بھی تحفظات نہیں تھے پہلے لیٹرل انٹری کے ذریعہ تقررات کی سہولت دی گئی جبکہ این ڈی اے نے اسے دستوری شکل دی اس کے ذریعہ سماجی انصاف کو یقینی بنانا ضرور تحفظات کی بنیاد پر لیٹرل انٹری کی مخالفت ہورہی ہے لیکن کیا اس احتجاج میں یہ شامل نہیں کہ اس سہولت میں شفافیت نہیں ہے، اعتماد و بھروسہ نہیں ہے مگر وزیر موصوف کہتے ہیں کہ یہ پوری شفافیت کے ذریعہ کیا جارہا ہے۔ بہرحال حکومت کو یہ جان لینا چاہیئے کہ فی الوقت وہ من مانی نہیں کرسکتی، جو دل میں آیا وہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔ ایسے میں اسے اپوزیشن کے ساتھ ساتھ خود اپنے اتحاد میں شامل جماعتوں سے بھی صلاح و مشورہ کرنا چاہیئے۔ اپوزیشن نے واضح طور پر کہہ دیا کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں ہے وہ لیٹرل انٹری کے ذریعہ اپنے مختلف لوگوں کو فائز کرکے اپنے مفادات کی تکمیل چاہتی ہے اور اپنا ایجنڈہ پورا کرنے کی خواہاں ہے۔