اپوزیشن کا اتحاد وقت کا تقاضہ

   

غضنفر علی خان
ان دنوں ہر جگہ اسی بات کا چرچہ ہورہا ہے کہ ملک کی اپوزیشن جماعتیں وزیراعظم مودی اور بی جے پی کے خلاف صف آرائی ہوگئی ہیں۔ 2019 ء ماہ اپریل یا مئی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں۔ کچھ مہینوں پہلے تک بی جے پی کو یہ گمان تھا کہ کوئی جماعت اس کے مقابل نہیں ہوسکتی، ہر پارٹی کے خلاف خود وزیراعظم حقارت آمیز تبصرہ کرتے رہے ، ان کی ہر بات ایک ڈکٹیٹر کی تھی ، وہ اپنے کسی فیصلے میں اپوزیشن کو کبھی اعتماد میں نہیںلیتے ، وزارت عظمیٰ کے دستوری تقاضوں کو بھی وزیراعظم نہیں سمجھتے لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ان کی خود پسندی اب جمہوریت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بن گئی ہے ، وہ اس لئے بھی ہے کہ وزیراعظم کے عہدہ کے بعض انتہائی نازک اور پیچیدہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں ، اپوزیشن جماعتیں دیر سے صحیح اس بات کو محسوس کرتی ہیں کہ مودی اور بی جے پی کی حکمرانی میں ہندوستان کی روح سیکولرازم اور جمہوریت کو خطرات نے ہر طرف سے گھر رکھا ہے ، یہ دونوں عوامل اس ہندوستان کی تعمیر ترقی میں اہم ترین عوامل رہیں گے اور وہ حکومت جو ان بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کرتی اور ملک میں کسی ایک دھرم کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں ، اس کو برقرار رکھنا گویا تباہی و بربادی کا دیکھتے ہوئے بھی نظر انداز کرنے کے برابر ہے ۔ آزادی کے بعد تقریباً 55 برس تک ملک پر کانگریس کی حکمرانی رہی ۔ 1970 ء میں کانگریس کی وزیراعظم محترمہ اندرا گاندھی نے جو ایمرجنسی نافذ کی تھی اس کے دو ڈھائی سال بعد اسی طرح عام انتخابات ہوئے تھے ، ایمرجنسی کی نفاذ کی وجہ سے عوام میں شدید غم و غصہ تھا جس کی وجہ سے اندرا گاندھی جیسی مقبول وزیراعظم کو بھی شکست ہوئی ، اس وقت بھی کانگریس پارٹی نے جمہوری و دستوری اداروں پر ا پنا شکنجہ کس دیا تھا اور عدلیہ کم و بیش غیر کارکرد ہوگئی تھی ، دستوری ادارے دم توڑ رہے تھے، ہر طرف ’’ہائے توبہ‘‘ کا ماحول تھا ۔ اپوزیشن کی زبان کو بند کرنے کیلئے لیڈروں کی بے تحاشہ اور غیر ضروری گرفتاریاں ہورہی تھیں، مجموعی طور پر ایمرجنسی سے پہلے ملک کے حالات اور ماحول تقریباً ویسے ہی تھے جیسے آج دکھائی دیتا ہے ۔ ایمرجنسی کے بعد 1977 ء میں عام چناؤ ہوئے اور عوام نے کانگریس کے خلاف ووٹ دے کر تمام پا رٹیوں پر مشتمل جنتا پا رٹی کو اقتدار سونپا تھا جس کے وزیراعظم مرارجی دیسائی تھے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ حکومت جس میں کانگریس کی اپوزیشن تمام پارٹیوں نے شراکت داری کی تھی منتشر ہوگئی اور مرارجی دیسائی حکومت کا خاتمہ ہوگیا ، آج کے حالات اس وقت کے حالات سے زیادہ محتلف نہیں ہیں ، اپوزیشن لیڈروں کو آج بھی ہراساں کیا جارہا ہے جیسے چدمبرم اور کانگریس کے دیگر لیڈرس ہیں ۔ پرینکا گاندھی کے شوہر رابرٹ کو پھانسنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ سی بی آئی کے سابق ڈائرکٹر کے خلاف سپریم کورٹ نے جو فیصلہ کیا تھا اس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مودی حکومت نے ان کے خلاف مخالفانہ کارروائی کی اور ایسی کئی باتیں ہیں جن سے اپوزیشن جماعتوں کو یہ احساس ہوگیا کہ اگر آر ایس ایس کی تائید سے چلنے والی مودی حکومت کو اور اگر وقت مل جائے تو وہ سب کچھ بدل کر رکھ دے گی۔ اپوزیشن جماعتیں جب تک الگ الگ تھیں وہ کوئی طاقت نہیں تھیں بلکہ ریت کے زروں کے مانند تھیں ،

اب اپوزیشن متحد ہوگئی تو بی جے پی کو یہ خدشہ محسوس ہونے لگا کہ ریت کے زرات جب چٹان کی صورت اختیار کرتے ہیں تو وہ بڑے سے بڑے طوفان کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔ یہی خوف ہے جو بی جے پی حکومت کیلئے سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ آئندہ دو مہینوں میں جو انتخابات ہوں گے ان میں ایک طرف بی جے پی اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے میدان میں اترے گی تو دوسری طرف کانگریس پارٹی اور اپوزیشن جماعتیں دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کیلئے مقابلہ آرائی کریں گی ۔ دونوں کا مقصد ایک ہی ہے کہ کسی طرح حکمرانی مل جائے ، البتہ اس جذبہ کے اسباب و علیل بے حد مختلف ہیں، بی جے پی ہندو راشٹرا اور ہندوتوا کے قیام کیلئے جدوجہد کر رہی ہے تو اپوزیشن پارٹیاں مل کو کسی ایک دھرم کی حکمرانی سے بچانے اور سیکولر اقدار کو محفوظ رکھنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس لحاظ سے اپوزیشن کا محاذ اپنے آگے ایک اعلیٰ و عرفہ مقصد رکھتا ہے جبکہ بی جے پی ایک ناقابل عمل حکمرانی کیلئے زور لگا رہی ہے ، ہر لحاظ سے اپوزیشن کے اس اتحاد میں سیکولرازم اور جمہوریت کو بچانے کا جذبہ کار فرما ہے جبکہ بی جے پی اور سنگھ پریوار ہندوتوا کی چھاپ ہندوستان پر لگانے کیلئے سب کچھ کر گزرنے کی خواہش رکھتی ہے ، ظاہر ہے کہ کانگریس اور اپوزیشن پارٹیوں کا مقصد اعلیٰ ہے کیونکہ ہندوستان میں کسی ایک عقیدہ کی حکومت نہیں بن سکتی اور وہ تمام طاقتیں جو اپنی حکومت کی تشکیل کے مخالف ہیں ، انہیں بلا شبہ اپنے کامل اتحاد کا مظاہرہ کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے باہمی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے خود کو ایک سیاسی طاقت بناکر بی جے پی کو شکست دینا چاہئے ۔ اپوزیشن کے اتحاد پر مودی جی اور آر ایس ایس محتلف انداز میں تنقیدیں کر رہے ہیں ، اپوزیشن نے اپنے اتحاد کا نام ’’ مہا گٹھ بندھن‘‘ رکھا ہے لیکن چونکہ اس میں مودی اور بی جے پی کے کٹر مخالفین شامل ہیں اس لئے وزیراعظم اس ’’مہا گٹھ بندھن‘‘ کو ’’مہا ملاوٹ‘‘ کہہ رہے ہیں لیکن بکھری ہوئی اپوزیشن اگر موجودہ حالات میں یکجا ہوتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ بشرطیکہ عین وقت پر ان جماعتوں میں کوئی خلفشار نہ پیدا ہوجائے ، اس اتحاد کو مضبوط کرنے میں تمام 23 اپوزیشن پارٹیوں نے مثبت رول ادا کیا لیکن اس کی تشکیل میں کلیدی رول آندھراپردیش کے چیف منسٹر مسٹر این چندرا بابو نائیڈو اور بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کے نام خصوصی طور پر لئے جانا چاہئے ، پہلے کلکتہ میں ممتا بنرجی نے اپومیشن اتحاد کا مظاہرہ کیا جس میں کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک اپوزیشن لیڈروں نے شرکت کی تھی ۔ اس کے بعد دہلی میں چندرا بابو نائیڈو کی ایک روزہ بھوک ہڑتال اتحاد کی مزید مضبوطی اور استحکام کا ثبوت ملتا ہے ، یہ اتحاد و اتفاق آخری لمحہ تک قائم و برقرار رہے تو 2019 ء کے انتخابات میں بی جے پی کی شکست اور اپوزیشن اتحاد کی فتح کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ جیسا کہ ابتداء میں کہا گیا ہے اس اتحاد کا مقصد ملک کو افراتفری اور انارکی سے بچانے کے لئے جو اپوزیشن متحد ہوا ہے اس سے زیادہ کوئی بہتر بات نہیں ہوسکتی۔