اچھا ، بُرا اور مشکوک

   

پی چدمبرم ،سابق وزیر داخلہ و فینانس
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 5 کا سال 2019-21ء کے دوران انعقاد عمل میں آیا جبکہ سابقہ سروے (این ایچ ایف ایس 4) سال 2015-16ء میں کیا گیا۔ دونوں سروے این ڈی اے کی حکومت میں کئے گئے اس لئے دونوں سرویسیز کے درمیان جو تبدیلیاں آئی ہیں، ان سے 2014-15ء تک اختیار کی گئیں پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مسٹر نریندر مودی کی حکومت کی پالیسیوں کے اثر کا اظہار ہوتا ہے۔ پچھلے سروے کی طرح NFHS-5 کے کلیدی اشاریئے ایسے مسائل پر ہیں جیسے کہ آبادی، مکانات کے پروفائل ناخواندگی شادی بیاہ اور بالیدگی، زچہ اور بچہ کی صحت (ماں اور بچہ کی صحت) ٹیکہ اندازی طبی علاج و معالجہ کا معیار، خون کی کمی، خواتین کو بااختیار بنانا اور تمباکو ،شراب نوشی یا ان کا استعمال وغیرہ وغیرہ اعداد و شماریاتی تخمینے ہیں، چار برسوں کے دوران کئے گئے دو سرویسز کی بنیاد پر دیئے گئے ہیں، اہم بات یہ ہے کہ دو سروے علیحدہ علیحدہ طور پر کئے گئے تھے۔ چونکہ سروے میں اپنایا گیا طریقہ کار ایک ہی تھا، اس لئے اعداد میں تبدیلی بہت مفید اسباق دیتے ہیں۔ اس عمل یا کیفیت کو اعداد و شمار کے ماہرین ڈیلٹا کہتے ہیں، بہرحال چند تبدیلیاں ہمارے لئے باعث فخر ہوں گی، کچھ ہمیں افسردہ کریں گی اور کچھ شکوک و شبہات کو جنم دیں گی۔
خوشخبری : سب سے بڑی ’’بریکنگ نیوز‘‘ یہ ہے کہ بالیدگی کی کل شرح 2.2 (بچے فی خاتون) سے گرکر 2-0 ہوگئی ہے جبکہ متبادل کی شرح 2.1 ہے۔ عدد 2.0 کے مثبت اور ساتھ ہی منفی اثرات ہیں جن کیلئے ایک الگ مضمون کی ضرورت ہوگی، اس لئے فی الحال ہم اس بات پر اطمینان رکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی آبادی خطرناک حد تک نہیں بڑھ رہی ہے اور توقع سے پہلے ہی مستحکم ہوسکتی ہے۔ سب سے پہلے اچھی خبر یہ ہے کہ 88.6% بچے ایک ادارے میں پیدا ہوئے (اس کا مطلب یہ ہے کہ کئی قسم کی طبی دیکھ بھال و نگہداشت کے تحت)۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ 78.9% سے بڑھ کر خاندانوں میں زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کا خیرمقدم کیا جارہا ہے اور ایسا خاص طور پر دیہی ہندوستان میں دیکھا جارہا ہے جس کا تناسب (فی ہزار مردوں میں خواتین) یعنی ہزار مردوں کیلئے 991 خواتین سے بڑھ کر 1020 تک پہنچ گیا جبکہ 88.0% آبادی، سال 2015-16ء کے دوران ایسے گھروں میں رہتی تھی جہاں بجلی کی سہولت موجود تھی۔ مودی حکومت نے اس تناسب کو 96.8% کرنے کیلئے 8.8% کا اضافہ کیا ہے (جیسا کہ دعویٰ کیا گیا)۔ بہت ہی تعداد میں خواتین اور مرد شادی کی قانونی عمر 18 اور 21 سال تک پہنچنے سے پہلے ہی شادی کرلیتے ہیں یا ان کی شادی بیاہ کردی جاتی ہیں لیکن 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل شادی کرنے والی 23.3% خواتین کو ہنوز ایک اور طویل سفر طئے کرنا ہوگا۔ زیادہ اچھی خبر نہیں: سب سے بڑی بریکنگ اور بُری خبر یہ ہے کہ ہندوستان کی نصف سے کچھ زیادہ آبادی نے اسکولی تعلیم کے 10 سال پورے نہیں کئے۔ اس میں 58% خواتین اور 49.9% مرد شامل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آزادی کے 75 سال بعد بھی ملک کی نصف آبادی اکیسویں صدی کی ملازمتوں اور کاروبار میں مصروف نہیں ہوسکتی جس کیلئے اعلیٰ تعلیم اور جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ مہارت درکار ہوتی ہے۔
ایسی خبریں جو سوالات اُٹھاتی ہیں: کچھ اعداد و شمار ان پہلوؤں پر مزید سوالات اُٹھاتے ہیں جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ واضح ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 95.9% آبادی ایسے گھروں میں مقیم ہے جہاں پینے کے پانی کے ذرائع موجود ہیں۔ فوٹ نوٹ پینے کے پانی کے بہتر ذریعہ کی وضاحت کرتا ہے جس میں پائپ واٹر، سرکاری نل یا ٹیوب ویل (بورویل) شامل ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے لیکن جب اس کی تعریف میں ایک محفوظ کھودا ہوا کنواں، ایک محفوظ چشمہ اور بارش کا پانی شامل ہے تو یہ واضح کہ 95.9% کی طرح متاثرکن تناسب تک پہنچنے کیلئے قدیم غیرمحفوظ پانی کے ذرائع کو شامل کرنے کی ایک بڑی کوشش کی گئی ہے۔ مجھے شک ہے کہ یہ اعلان کرنے سے پہلے یہ آخری قدم ہوگا کہ تمام گھرانوں کو انفرادی گھریلو نلوں کی فراہمی کا ہدف 2024ء کے سال ہدف تک حاصل کرلیا جائے گا۔ دوسری جانب اجولا یوجنا کے بارے میں بلند بانگ دعوؤں کے باوجود صرف 58.5% گھروں میں پکوان کیلئے صاف ستھرا فیول استعمال ہوتا ہے۔ یہ فیصد دراصل ایل پی جی یا پائپ سے سربراہ کی جانے والی گیس کنکشن سے متعلق باقاعدہ استعمال ہونے والے ایل پی جی سلنڈرس سے متعلق نہیں۔
ترقی کی معاندانہ شرحوں کے نتیجہ میں کئی ملین لوگ غربت کا شکار ہیں اور کئی ملین انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم غذا کے استعمال جیسے اشاریہ کو لیتے ہیں، کسی بھی گھر کی آمدنی کی پہلی تبدیلی غذا ہے۔ اگر خواتین کی کثیر تعداد خون کی کمی کا شکار ہو اور بچوں کی قابل لحاظ تعداد کا جسمانی وزن کم ہو یا خون کی کمی اُن میں پائی جاتی ہو تو یہ غربت کی وجہ سے ہی ہے اور افسوس کے موجودہ حکومت نے ان بچوں کو فراموش کردیا۔