اک امتحان سے گزرا اک امتحان کے بعد

,

   

پارلیمنٹ سیشن… وقف بل پر اپوزیشن کا امتحان
چھتیس گڑھ … زبان پر پہرہ کی کوشش
کاشی اور متھرا کے بعد سنبھل کی جامع مسجد نشانہ پر

رشیدالدین
پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کا 25 نومبر کو آغاز ہوگا ۔ ملک کی چار ریاستوں کے اسمبلی چناؤ کے پس منظر میں پارلیمنٹ سیشن ہنگامہ خیز ثابت ہوگا۔ جموں و کشمیر ، ہریانہ ، مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ کے نتائج کا اثر لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں صاف دکھائی دے گا۔ 20 ڈسمبر تک جاری رہنے والے سیشن میں قومی اور بین الاقوامی مسائل زیر بحث آسکتے ہیں۔ چین سے سرحدی تنازعہ کی یکسوئی کو بی جے پی نریندر مودی کے کارنامے کے طور پر پیش کرے گی اور امریکہ میں مودی کے دوست ڈونالڈ ٹرمپ کی واپسی بھی بحث کا موضوع بن سکتی ہے۔ نریندر مودی کے 10 سالہ دور حکومت میں پارلیمنٹ کے اجلاس ہوتے رہے لیکن تیسری میعاد کے آغاز نے اجلاس کی نوعیت کو تبدیل کردیا ہے ۔ پارلیمنٹ میں واضح اکثریت کے زعم میں مودی حکومت کے پاس اپوزیشن کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور حکومت کی من مانی کے آگے اپوزیشن بے بس تھی۔ مودی حکومت نے 10 برسوں میں جو چاہا اس پر عمل کیا ۔ ملک میں کئی متنازعہ فیصلے کئے گئے اور انہیں قانون کی شکل دی گئی۔ اپوزیشن کو بھی دس برسوں میں اپنی عددی طاقت میں کمی کا احساس ہوتا رہا اور کئی مواقع پر بی جے پی ارکان اور خود وزیراعظم نریندر مودی نے کمزور اپوزیشن پر طنز کے تیروں کی بارش کردی۔ 10 سالہ اقتدار کے نشہ نے بی جے پی کو اندھا کردیا تھا اور وہ بھول گئی تھی کہ جمہوریت میں عوام حقیقی بادشاہ گر ہوتے ہیں اور صورتحال کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ نریندر مودی اور بی جے پی کو اقتدار تیسری مرتبہ حاصل تو ہوگیا لیکن اقتدار کی برقراری کے بارے میں ہمیشہ اندیشے برقرار رہیں گے ۔ حلیف جماعتوں کی بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی مودی حکومت کب لڑکھڑا جائے اور حکومت سے اپوزیشن میں آجائے کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ جس طرح نریندر مودی کے انتخابی وعدے محض جملہ ثابت ہوئے تھے ، اسی طرح تلگو دیشم اور جنتا دل یونائٹیڈ کی تائید پانچ سال برقرار رہے ، اس کی کوئی ضمانت نہیں ہے ۔ ملک کی پارلیمانی تاریخ میں مخلوط حکومتوں کی کامیابی کی شرح بہت کم رہی۔ سابق میں مخلوط حکومت نے بھلے ہی میعاد مکمل کرلی ہو لیکن ایک کمزور حکومت ثابت رہی جس پر ہمیشہ حلیفوں کا دباؤ برقرار رہا ۔ اقتدار کی ایسی کرسی کس کام کی جس کے پیر کی رسی حلیف پارٹیوں کے ہاتھ میں ہوں ۔ نریندر مودی کیلئے تیسری میعاد کا تاج پھولوں کا نہیں بلکہ کانٹوں کے تاج کی طرح ہے۔ مودی کو مخلوط حکومت کی قیادت کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور ابھی تو ابتدائے عشق ہے۔ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کی تاریخ رہی کہ وہ کبھی بھی ایک اتحاد کے ساتھ نہیں رہے۔ دونوں کانگریس کے ساتھ بھی کام کرچکے ہیں اور فرقہ پرست بی جے پی سے دوبارہ مفاہمت نہ کرنے کا اعلان بھی کئی بار کیا ہے ۔ اپنی اپنی ریاستوں کی سیاسی مجبوری نے دونوں کو بی جے پی کا دوست بنادیا ہے ۔ دونوں قائدین نے سیاسی چالبازیوں اور موقع پرست سیاستدانوں کے طور پر اپنی پہچان بنائی ہے۔ باوجود اس کے دونوں بنیادی طور پر سیکولر نظریات پر اٹوٹ ایقان رکھتے ہیں۔ آندھراپردیش اور بہار میں مسلمانوں کی تائید کے نتیجہ میں دونوں کو اقتدار حاصل ہوا ہے ۔ نریندر مودی پہلی اور دوسری میعاد کی طرح اگر تیسری میعاد میں متنازعہ فیصلے کرتے ہیں تو حلیفوں کی بغاوت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ مانسون سیشن میں مودی حکومت کا پہلا امتحان وقف ترمیمی بل 2024 رہے گا۔ لوک سبھا میں بل کو پیش کئے جانے کے موقع پر جس طرح مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، ان میں اپوزیشن کے ساتھ بعض حلیف پارٹیوں کی آوازیں شامل تھیں۔ مودی حکومت کو متنازعہ بل کو مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (JPC) سے رجوع کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بی جے پی نے بل کے بارے میں عوامی رائے جاننے کیلئے ملک بھر کا دورہ کیا لیکن کمیٹی کے صدرنشین کا تعلق چونکہ بی جے پی سے ہے اور ارکان کی حیثیت بھی بی جے پی سے ہے ، لہذا حکومت کی مرضی کے مطابق رپورٹ پیش کرنے کی تیاری ہے ۔ اپوزیشن ارکان نے جے پی سی کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا جبکہ تلگو دیشم ، جنتا دل یونائٹیڈ اور وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے علاوہ چراغ پاسوان کی پارٹی نے اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ ان پارٹیوں نے مسلمانوں کو بھروسہ دلایا کہ ان کے خلاف کسی بھی قانون کی تائید نہیں کریں گے۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ جے پی سی نے عوامی سماعت کے دوران ایسے افراد اور اداروں کو مدعو کیا جن کا وقف بل سے کوئی تعلق نہیں ۔ وقف مسلمانوں کا خالص مذہبی اور شرعی معاملہ ہے ۔ اس میں آر ایس ایس ، بی جے پی ، وی ایچ پی اور سنگھ پریوار کی رائے کا کیا تعلق ہوگا۔ غیر متعلقہ افراد کے ذریعہ تائید حاصل کرتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش ہے کہ بل کو ملک کے عوام نے منظوری دی ہے۔ چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار اپنے پتے اس وقت کھولیں گے جب مودی حکومت متنازعہ وقف ترمیمی بل پیش کرے گی۔ امیت شاہ اور وزیر پارلیمانی امور کرن رجیجو نے سرمائی سیشن میں بل کی منظوری کا اعلان کیا ہے لیکن جے پی سی رپورٹ کی پیشکشی کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت نے رپورٹ پہلے سے تیار کرلی ہو اور جے پی سی کی سرگرمیاں محض ایک دکھاوا ہیں۔ انڈومنٹ کے کسی معاملہ میں اور کسی مندر کے ٹرسٹ کے بارے میں جب مسلمان رائے نہیں دے سکتے تو پھر وقف کے بارے میں دوسروں کی رائے حاصل کرنے کا کیا جواز ہے۔ مندروں کے ٹرسٹ اور انتظامی امور میں غیر ہندو شخص کو نہیں رکھا جاتا۔ تروملا تروپتی دیوستھانم ٹرسٹ نے تمام مسلم ملازمین کو رضاکارانہ سبکدوشی یا پھر حکومت کے کسی محکمہ میں ضم ہوجانے کا مشورہ دیا ہے ۔ اکثریتی طبقہ کے مذہبی جذبات کا اس قدر احترام کہ ایک مسلمان ملازم برداشت نہیں لیکن ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی اکثریت کے مذہبی جذبات کی اہمیت کیوں نہیں ؟ دستور ہند نے ہر شہری کو مساوی حقوق فراہم کئے ہیں ، چاہے وہ سماجی انصاف ، انسانی حقوق ہوں یا مذہبی آزادی۔
افراد پر پابندی اور پہرہ داری کے بارے میں تو ہر کسی نے سنا ہے لیکن چھتیس گڑھ میں مسلمانوں کی زبان پر پہرہ بٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک میں بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کوئی نئی بات نہیں رہی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ کو لیکر مسابقت جاری ہے۔ چھتیس گڑھ وقف بورڈ نے تمام مساجد کمیٹیوں اور متولیوں کو ہدایت جاری کی ہے کہ خطبہ جمعہ سے قبل کی جانے والی تقریر کے متن کی قبل از وقت منظوری حاصل کی جائے۔ مساجد میں سیاسی امور پر تقاریر کو روکنے کے مقصد سے یہ قدم اٹھایا گیا۔ چھتیس گڑھ وقف بورڈ کا یہ اقدام غیر دستوری ہے کیونکہ دستور ہند نے اظہار خیال کی مکمل آزادی دی ہے۔ وقف بورڈ کی صدارت پر فائز بی جے پی نواز صدرنشین نے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے یہ تغلق فرمان جاری کیا ہے ۔ دراصل بی جے پی چھتیس گڑھ میں مسلمانوں کو سیاسی طور پر باشعور دیکھنا نہیں چاہتی۔ مساجد میں جمعہ کے مو قع پر کی جانے والی تقاریر مسلمانوں کو بیدار کرنے کا واحد ذریعہ ہے بی جے پی نہیں چاہتی کہ مسلمانوں کو ان کے دستوری اور قانونی حقوق سے آگاہ کیا جائے ۔ ویسے بھی وہ دور نہیں رہا جب مساجد سے انقلابی تحریکات کا آغاز ہوا تھا۔ اب مساجد میں کی جانے والی تقاریر زیادہ تر مسلکی اختلافات کا احاطہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلمانوں کی موجودہ بے حسی کے باوجود بی جے پی کا مساجد سے خوف مضحکہ خیز ہے ۔ شائد ایمرجنسی کے دوران بھی مساجد کے بارے میں اس طرح کے سخت احکامات نہ رہے ہوں۔ ہندوتوا ایجنڈہ کے تسلسل کے طور پر اتر پردیش میں سنبھل ضلع کی جامع مسجد کو مندر قرار دینے کی تیاری ہے ۔ سنبھل کی مقامی عدالت نے جامع مسجد کے سروے کی ہدایت دی تاکہ اس بات کا پتہ چلایا جاسکے کہ آیا مندر کو منہدم کرتے ہوئے مسجد تعمیر کی گئی ۔ سیول جج نے درخواست کی سماعت کے اندرون تین گھنٹے سروے کی ہدایت دی اور سروے کیلئے حکام مسجد پہنچ گئے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ جامع مسجد کے خلاف درخواست دائر کرنے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ سپریم کورٹ میں اتر پردیش حکومت کے اسٹینڈنگ کونسل ہیں۔ مساجد کے خلاف نفرت کا جذبہ کس حد تک سماج میں سرائیت کرچکا ہے کہ اس کی یہ تازہ مثال ہے ۔ اترپردیش میں کاشی اور متھرا کے بعد یوں تو کئی مساجد کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن سنبھل کی جامع مسجد کے سروے کے آغاز سے اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مندر قرار دی جائے گی۔ ’’مودی ہے تو ممکن ہے ‘‘کے نعرہ کے تحت ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ دراصل بابری مسجد کے بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہندوتوا طاقتوں کے حوصلے بلند ہوچکے ہیں اور مساجد کو نشانہ بنانے کی مہم تیز ہوچکی ہے۔ موجودہ صورتحال پر ساقی امروہی کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
تمام عمر میں ہر صبح کی اذان کے بعد
اک امتحان سے گزرا اک امتحان کے بعد