٭ لوک سبھا میں بی جے پی ارکان 303 ہیں
٭ درج فہرست قبائل و طبقات کے 77 ارکان ہیں
٭ اگر یہ دستبردار ہوجائیں تو بی جے پی کی تعداد صرف 226 رہ جائیگی
٭ حلیف جماعتیں بھی حکومت بچا نہیں پائیں گی
حیدرآباد ۔ /30 جنوری (سیاست نیوز) سارے ملک میں سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کو لیکر ہندو ، مسلم ، سکھ ، عیسائی سب کے سب سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ۔ خاص طور پر اس قانون کو مسلمانوں اور دلتوں کیلئے تباہ کن بتایا جارہا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے ۔ مگر آج ہندوستان میں دلتوں کی حالت زار کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہیں ذات پات کی بنیاد پر انسان ہی نہیں سمجھا جاتا اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے دلتوں کو اچھوت قرار دے رکھا ہے ۔ نتیجہ میں ملک میں ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جہاں دلت نوجوان کو صرف اس لئے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا کیونکہ اس نے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کے سامنے کرسی پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی جرأت کی تھی یا پھر ایک دلت نوجوان کو صرف اس لئے قتل کردیا جاتا ہے کیونکہ اس نے گھڑسواری کا شوق پورا کیا تھا ۔ حد تو یہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کا کتا چھونے پر دلتوں کے ہاتھ کاٹ دیئے جانے کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں ۔ نائب وزیراعظم سے لیکر بعض ریاستوں کے دلت چیف منسٹرس جب مندروں کے درشن کئے یا کسی اعلیٰ ذات کے لیڈر کے گھر میں توقف کیا ان مندروں اور گھروں کو یہ کہتے ہوئے دودھ سے دھویا گیا کہ ان کے آنے سے وہ مقامات اپوتر (ناپاک) ہوگئے ہیں ۔ بی جے پی درج فہرست طبقات و قبائیل کی بہبود کی باتیں تو بہت کرتی ہے لیکن کسی دلت کو اعلیٰ عہدہ پر فائز کرکے سارے دلتوں کے مسائل حل نہیں کئے جاسکتے ۔
دوسری طرف سنگھ پریوار میں یہ آوازیں بھی اٹھنے لگی ہیں کہ دلتوں کو دیئے جارہے تحفظات ختم کردیئے جائیں ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں سنگھ پریوار اپنے اس منصوبہ پر عمل کرواسکتا ہے ۔ حال ہی میں بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد المعروف راون نے حیدرآباد کا دورہ کیا لیکن انہیں حراست میں لے کر دہلی واپس بھیج دیا گیا ۔ وہ کہتے ہیں کہ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ دلتوں کے خلاف بھی ہے ۔ مسئلہ کشمیر پر مودی حکومت کے معاندانہ رویہ کو لیکر بطور احتجاج استعفیٰ دینے والے کنکا گوپی ناتھن کے مطابق سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر صرف مسلمانوں اور دلتوں کے ہی نہیں بلکہ تمام غریب ہندوستانیوں کے خلاف ہے ۔ میگسے ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سندیپ پانڈے تو ملک کے موجودہ حالات کے تناظر میں مودی حکومت کی برخواستگی کی وکالت کرتے ہیں اکثر دانشور سیاسی قائدین اور سماجی جہدکار بھی ملک کے موجودہ حالات کیلئے مودی حکومت کو ذمہ دار قرار دیئے ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا پارلیمنٹ میں 303 ارکان رکھنے والی بی جے پی اقتدار سے محروم ہوسکتی ہے ؟ مودی حکومت کو آیا گرایا جاسکتا ہے ؟ یا زوال سے دوچار کیا جاسکتا ہے ؟ یہ ایسے دلچسپ سوال ہے کہ ان پر غور کرنا بھی ضروری ہے ۔ مودی حکومت میں صرف اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہی ظلم و جبر کا نشانہ نہیں بنایا جارہا ہے بلکہ دلت بھائی بھی کافی مظالم کا شکار ہیں ۔ قبائیلیوں کی حالت قابل رحم ہے ۔ درج فہرست طبقات و قبائیل کے خلاف جرائم بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ ان کا سیاسی سماجی و مذہبی استحصال ہورہا ہے ۔ ایسے میں اگر خود بی جے پی کے 303 ارکان پارلیمنٹ میں موجودہ درج فہرست طبقات و قبائیل کے 77 ارکان پارلیمنٹ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے علم بغاوت بلند کرتے ہیں تو لوک سبھا میں بی جے پی کی اکثریت 303 سے گھٹ کر 226 ہوجائے گی جبکہ جادوئی عدد 272 کا ہے ۔ بی جے پی کو اس جادوئی عدد تک پہنچنے کیلئے 46 ارکان کی تائید درکار ہوگی اور اس کی حلیف جماعتوں کی تائید سے بھی اس کی بھرپائی نہیں ہوسکتی ۔ اس سلسلہ میں بہوجن کرانتی مورچہ کے سربراہ وامن مشرام ، بھیم آرمی کے صدر چندر شیکھر آزاد المعروف راون بی جے پی کے سابق ایم پی اور موجودہ کانگریس لیڈر ادت راج ، معمار دستور بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر جیسے قائدین کو حرکت میں آنا اور ملک کو بچانا ہوگا ۔ اگر ہم لوک سبھا کے 543 ارکان کا جائزہ لیں تو درج فہرست طبقات و قبائیل کے 131 ارکان ہیں جن میں سے 77 بی جے پی کے ہیں ۔