اگلا وزیراعظم دلت ہوسکتا ہےاپوزیشن کیلئے خصوصی حکمت عملی ضروری

   

ہریش کھارے
اگر اب تک کہ سب سے عظیم گراس کورٹ کھلاڑی نواک جوکووچ کو ہرایا جاسکتا ہے تو وزیراعظم نریندر مودی کو بھی عام انتخابات 2024 میں عوام کی عدالت میں شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے ایسا ممکن ہے ۔اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی منظرنامہ عجیب و غریب ہے اس کے باوجود کارلوس الکاراز اپوزیشن میں موجود ہے ۔ اور اپوزیشن کے کارلوس الکاراز کوئی اور نہیں بلکہ ملکارجن کھرگے ہیں اگر اپوزیشن لیڈران بڑی احتیاط اور ہوشیاری سے سیاسی کھیل کھیلتے ہیں تو آئندہ مئی یعنی مئی 2024 میں ہمارے ملک ہندوستان کو پہلا دلت وزیراعظم مل سکتا ہے ۔ اپوزیشن اتحاد کی سب سے بڑی خامی اس میں قیادت کا فقدان ہے اور قیادت کا یہی فقدان اس کو درپیش سب سے بڑے مسئلہ کے اطراف گھومتا ہے ۔ حقیقت یہ ہیکہ کوئی بھی غیر کانگریسی جماعت اپنے بل بوتے پر 40 سے زیادہ لوک سبھا نشستوں پر کامیابی حاصل نہیں کرسکتی یہی وجہ ہیکہ وہ عہدہ وزارت عظمی پر دعوی نہیں کرسکتی اور نہ ہی اس قسم کے دعوی کو کوئی تسلیم کرے گا ۔ دوسری اہم بات یہ ہیکہ جب کسی بھی غیر بی جے پی اور غیر مودی متبادل کیلئے کانگریس کی مرکزیت سوال سے بالاتر ہے لیکن اپوزیشن اتحاد میں شامل جماعتیں عہدہ وزارت عظمی کے امیدوار کے طور پر راہول گاندھی کو قبول نہیں کریں گی کیونکہ گاندھی خاندان اور دوسری اپوزیشن جماعتوں کے درمیان کافی اختلافات اور تحفظات ذہنی پائے جاتے ہیں اچھی بات یہ ہیکہ کانگریس نے فی الوقت اس بات پر زور نہیں دیا ہیکہ راہول گاندھی عہدہ وزارت عظمی کیلئے اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار ہیں ۔
دوسری طرف چیف منسٹر مغربی بنگال اور ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی کے ساتھ ساتھ عام آدمی پارٹی لیڈر و چیف منسٹر دہلی اروند کیجریوال کو عہدہ وزیراعظم کیلئے پیش کرنا آسان نہیں ہوگا ۔ تیسری اہم بات یہ ہیکہ راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاتر یقیناً کامیاب رہی اس کے ذریعہ حکمراں بی جے پی کے خلاف عوام میں زبردست جوش و خروش پیدا کیا گیا ۔ کانگریس اپنے قائدین و کارکنوں کو متحرک کرنے میں کامیاب بھی رہی ان تمام باتوں کے باوجود راہول گاندھی ابھی تک قبولیت کی دہلیز عبور نہیں کرپائے وہ ایک ایسی سیاسی شخصیت بنے ہوئے ہیں جس کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا ۔ جہاں تک متوسط طبقہ کا سوال ہے کامیابی کی کنجی اسی طبقہ کے ہاتھوں میں ہے اور موجودہ حالات میں فی الوقت تو ایسا لگ رہا ہیکہ راہول گاندھی کی حمایت نہیں کرے گا یہ بات ضرور ہیکہ راہول گاندھی نام کے اعتبار سے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں اور ایسے لیڈر جن کے اطراف شخصی مفادات کے حامل عناصر گھیرا ڈالے ہوئے ہیں ، اور یہ عناصر ایسے ہیں جو کانگریس میں اختیارات کے بغیر طاقت کے استعمال کے عادی ہیں وہ اپوزیشن کی کسی بھی حکمت عملی کے بارے میں بہت کم پرجوش ہوں گے کیونکہ انہیں اندیشہ ہیکہ اگر اپوزیشن کی حکمت عملی کامیاب رہتی ہے تو ان کی اہمیت و افادیت گھٹ جائے گی اور یہی بات راہول گاندھی کی بہن پرینکا وڈرا گاندھی کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے ۔ راہول گاندھی نے پوری طرح یہ واضح کردیا ہیکہ وہ ایک بڑی تنظیم کو چلانے میں دلچسپی نہیں رکھتے جبکہ ایک بڑی مرکزی حکومت تو دور کی بات ہے حد تو یہ ہیکہ وہ اپنی ماں سونیا گاندھی کی طرح معاملہ فہمی کا فن بھی نہیں رکھتے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں اپوزیشن لیڈران کانگریس کی قیادت سے کیسے مفاہمت کرسکتے ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہیکہ شائد کانگریس کے زیرقیادت اتحاد کی سربراہی کیلئے ایک غیر گاندھی نہ صرف سب سے زیادہ قابل قبول ہوگا بلکہ اپوزیشن کی ترجیح بھی ہوگا اس کیلئے موجودہ حالات میں صدر کانگریس ملکارجن کھرگے کی اہمیت بڑھ گئی ہے وہ ایک دلت ہیں ایک بزرگ اور سمجھدار لیڈر ہیں بلکہ انہوں نے حالیہ عرصہ کے دوران یہ ثابت بھی کر دکھایا ہے کہ ان میں کافی سیاسی سمجھداری پائی جاتی ہے اور حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی صلاحیتیں بھی ان میں بدرجہ اُتم موجود ہیں وہ جلد مشتعل نہیں ہوتے کسی سے بھی بآسانی سمجھوتہ کرلیتے ہیں اور وقفہ وقفہ سے اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں ۔ ویسے بھی ملک کے ہر علاقائی سیاستداں پر یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ مودی ، شاہ اور یوگی پر مشتمل اتحاد ایک ایسا اتحاد ہے جو کے اقتدار برقرار رکھنے کی صورت میں تمام علاقائی لیڈروں ان کی جماعتوں دوست ہوں یا دشمن تمام کو ختم کردے گا ۔ چیف منسٹر اوڈیشہ نوین پٹنائیک ، صدر تلگودیشم چندرا بابو نائیڈو یا سکھبیر سنگھ بادل جیسے ابھی بھی کچھ سیاستداں ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس حکمراں بی جے پی سے دوستی کی ہنوز گنجائش باقی ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان سیاستدانوں اور ان کے سیاسی کیریئر کی بقاء پوری طرح مودی کی شرائط پر ہوگی اور مودی صرف اس وقت تک ان شرائط کا اعلان کرسکتے ہیں جب تک وہ سیاسی دوڑ میں کامیاب ہونے والا گھوڑا دکھائی دیں ۔ اگر ہم مودی کی کامیابی اور مقبولیت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہیکہ انہیں گاندھی خاندان کے چشم و چراغ راہول گاندھی کے خلاف ان کے تشہیری مینجرس نے ایسے کھڑا کیا جیسے مودی بہت ہی مظلوم غریب اور عوامی خدمت کے جذبہ سے سرشار ہیں ۔ ان لوگوں نے مودی کو ایک جدوجہد کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچنے والے شخص کی حیثیت سے پیش کیا اور ان کی بہتر شبہہ بنانے میں مدد کی ۔ مودی کو ان کے امیج مینجرس نے غریبوں کے کاز کے چیمپین کی حیثیت سے اُبھارا اب اپوزیشن کیلئے اچھا موقع ہے کہ مودی کی جس طرح امیج بنائی گئی اس امیج کی حقیقت دکھانے کیلئے ملکارجن کھرگے جیسے دلت لیڈر کو ان کے خلاف میدان میں اُتارا جائے اگر مودی کو ملک کے پہلے OBC وزیراعظم ہونے کا فائدہ حاصل ہوا ہے تو یہ بھی ممکن ہیکہ تمام دلت ملک کے پہلے دلت وزیراعظم کی کامیابی کے امکانات کو یقینی بنانے کیلئے اپوزیشن اتحاد کی تائید و حمایت کریں ۔ اس کیلئے صرف اپوزیشن کو ملک کو یہ یقین دلانا چاہئے وہ اجتماعی اور مشترکہ طور پر اپنے ملک کو ایک مستحکم حساس حکومت اور حکمرانی دیں گے اور اس کیلئے کسی سوپر اسٹرانگ وزیراعظم کی ضرورت نہیں کیونکہ مودی خود کو بار بار ایک مضبوط وزیراعظم قرار دیتے ہیں ۔ اپوزیشن لیڈروں کو عوام سے یہ بھی بتانا ہوگا کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران مودی حکومت کن محاذوں پر ناکام رہی مودی نے صرف باتیں بڑی بڑی کی اور چین کو لال آنکھ دکھانے کا دعوی بھی کیا نتیجہ میں چینی نے دراندازی کرتے ہوئے ہمارے ملک کے علاقوں پر ناجائز قبضہ کرلیا اور اس مضبوط وزیراعظم کی مضبوط حکومت میں چین اس قدر آگے بڑھ گیا کہ اُسے سابق کمزور حکومتوں میں بڑھنے کی ہمت نہیں تھی ۔ پاکستان بھی ہمیشہ کی طرح ہماری راہ میں روکاٹیں حائل کررہا ہے ۔ کشمیری ہنوز نئی دہلی سے دور ہیں اور ہر روز لوگ شمال مشرقی ریاستوں میں غلط حکمرانی کی شکایات عام ہیں اور اس کیلئے بھی نئی دہلی کی مضبوط و مستحکم حکومت ذمہ دار ہے ایک اور اہم بات ہیکہ مودی حکومت نے رشوت خوری و بدعنوانی کے خلاف باتیں تو بہت کی اس کے باوجود کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ 2014 سے پہلے ہندوستان جو کرپٹ تھا ۔ اب ویسا نہیں رہا حقیقت یہ ہیکہ بی جے پی زیراقتدار ریاستوں میں کرپشن کی شکایات عام ہے یہاں تک کہ چانکیہ نیتی کے طور پر ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت بھی عام ہوگئی ہے ۔