سعودی عرب کی وضاحت ، ولیعہد شہزادہ کی وزیراعظم عراق سے ٹیلی فونی بات چیت
ریاض ۔5جنوری ۔(سیاست ڈاٹ کام) سعودی عرب نے امریکہ کے اُس سے ایرانی جنرل کو ہلاک کرنے کیلئے کئے ہوئے ڈرون حملے سے قبل مشاورت کی تردید کی ۔ اتوار کے دن ایک سرکاری عہدیدار نے کہا کہ مملکت نہیں چاہتی کہ اس علاقہ میں کشیدگی میں اضافہ ہو حالانکہ امریکہ کی جانب سے ردعمل کے طورپر سعودی عرب پر انتقامی کارروائی کے بطور حملے کئے اعتبار سے مخدوش حالت میں ہے۔ جمعہ کے دن امریکہ کے ڈرون حملے سے طاقتور کمانڈر قاسم سلیمانی ہلاک کردیئے گئے تھے ۔ مملکت سعودی عرب نے کہا کہ امریکی حملے سے پہلے اُس سے کوئی مشورہ نہیں لیا گیا تھا حالانکہ اُسی پر اس حملے کا ذمہ دار ہونے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ۔ تیز رفتار تبدیلیوں کے دوران سعودی عرب نے پرزور انداز میں کہا کہ پاسداران انقلاب سے اُس کی کوئی مخالفت نہیں ہے اور ان تمام کارروائیوں سے علاقائی امن متاثر ہوسکتا ہے ۔ سعودی عرب نے کہا کہ ایرانی جنرل کی ہلاکت کے سنگین ااثرات مرتب ہوں گے ۔ وزارت خارجہ سعودی عرب نے بھی صبر و تحمل کی اپیل کرتے ہوئے ملک سلمان کے خیالات کا اعادہ کیا تھا ۔ سعودی عرب کے فرمانروا ملک سلمان نے پرزور انداز میں اپیل کی تھی کہ علاقائی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کرنے کی اہمیت ہے ۔ وہ صدر عراق برہم صالح سے ٹیلیفون پر بات چیت کررہے تھے ۔ علحدہ طورپر وزیراعظم عراق عادل عبدالمہدی سے ٹیلیفون پر بات چیت کرتے ہوئے ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان نے پرزور انداز میں ایسی کوششوں کی ضرورت کو اہم قرار دیا جس کے ذریعہ سے علاقائی کشیدگی میں کمی پیدا کی جاسکے اور صورتحال کو معمول پر لایا جاسکے ۔ سرکاری سعودی خبررساں ادارہ کی اطلاع کے بموجب ولیعہد شہزادہ نے شہزادہ خالد بن سلمان کو جو اُن کے چھوٹے بھائی ہیں اور دیگر عہدیداروں بشمول نائب وزیردفاع کو امریکہ اور لندن کے سفر نہ کرنے کی ہدایت دی ہے اور کہا کہ چند دن تک صبر و تحمل برتنے کی ضرورت ہے ۔ روزنامہ الشرق الاوسط نے اطلاع دی کہ شہزادہ خالد وائیٹ ہاؤس کا دورہ کریں گے اور متعلقہ امریکی عہدیداروں سے ملاقات کریںگے۔