ایرانی نیوکلیئر معاہدہ، دوحہ مذاکرات غیرفیصلہ کن ایران دوبارہ مذاکرات شروع کرنے تیار : ماجد تخت راونچی

   

دوحہ : ایران کا کہنا ہے کہ وہ بڑی عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015ء کے نیوکلیئر معاہدہ کی بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے امریکہ سے ازسر نو بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ تاہم ایران کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی امریکہ کے ساتھ نئے مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ نیوکلیئر معاہدے کی بحالی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کیا جا سکے۔اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے سلامتی کونسل کو جمعرات کے روز بتایا کہ ایرانی مذاکراتی ٹیم تعمیری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ کسی معاہدے پر پہنچا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ فیصلہ امریکہ کو کرنا ہے۔ اگر امریکہ عملیت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے سنجیدہ رویہ اپناتا ہے تو معاہدہ ہونا ناممکن نہیں ہے۔‘‘روانچی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب ایران اور امریکہ کے درمیان دوحہ میں جاری مذاکرات کسی پیشرفت کے بغیر ختم ہو چکے ہیں۔ روانچی نے تاہم دوحہ مذاکرات کو ’’سنجیدہ اور مثبت‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران اگلے مرحلے کی بات چیت کے لیے‘‘ یورپی یونین کے مذاکرات کاروں کے ساتھ رابطہ کرے گادوحہ مذاکرات کے بعد ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے کہا کہ مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کے باعث 2015ء کے نیوکلیئر معاہدے کی بحالی کے امکانات اور بھی کم ہو گئے ہیں۔امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ دوحہ مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ بہتا پانی قرار دیا جا سکتا ہے یا اسے واپسی کا سفر کہا جا سکتا ہے۔ اس وقت یہ پانی الٹی سمت بہہ رہا ہے۔ انہوں نے تاہم ان امور کی تفصیلات نہیں بتائیں، جن پر دوحہ میں بات چیت ہوئی۔امریکی عہدیدار نے ایران کے اس موقف کو بھی مسترد کیا ہے، جس کے مطابق مذاکرات میں پیشرفت نہ ہونے کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا گیا تھا۔خیال رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے سن 2018ء میں امریکہ کو ایران نیوکلیئر معاہدے سے یکطرفہ طور پر الگ کر لیا تھا اور تہران پر سخت پابندیاں عائد کر دی تھیں۔اجلاس کے دوران ایرانی سفیر نے کہا کہ ایران امریکہ سے اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ وہ دوبارہ اس معاہدے سے الگ نہیں ہو گا اور اس کی شقوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران پر پھر سے پابندیاں عائد نہیں کرے گا۔‘‘امریکہ کے نائب سفیر رچرڈ ملز نے اس کے جواب میں کہا کہ واشنگٹن باہمی اتفاق کی بنیاد پر ایران نیوکلیئر معاہدے کے مکمل نفاذ کے حوالے سے اب بھی اپنے عہد پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اپریل 2021ء میں مذاکرات کے آغاز میں ہی تہران کو بتا دیا تھا کہ امریکہ ایران کو اس بات کی کوئی قانونی ضمانت نہیں دے سکتا کہ مستقبل کی امریکی انتظامیہ اس معاہدے پر قائم رہے گی۔ملز م کا کہنا تھاہم کہہ چکے ہیں کہ ہم مستقبل کی انتظامیہ کو اس پر پابند رکھنے کا کوئی قانونی راستہ نہیں رکھتے۔ اس لیے ہم نے اس کے متبادل تلاش کرنے کی کوشش کی۔ ہمارے مطابق یہ معاملہ ختم ہو چکا ہے۔