’رابرٹ‘ کے خفیہ نام والے ہیکرس کا صدر کے قریبی ساتھیوں کی ای میلز پر مشتمل 100 گیگا بائٹس کا ڈیٹا ہونے کا دعویٰ
تہران، یکم ؍ جولائی (یو این آئی) ایران سے منسلک ہیکرز نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے قریبی حلقے سے چوری کیے گئے مزید ای میلز افشا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جب کہ 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات سے قبل وہ پہلے ہی کچھ ای میلز میڈیا کو جاری کر چکے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے اتوار اور پیر کے روز آن لائن گفتگو میں ’رابرٹ‘ کے خفیہ نام سے ان ہیکرز نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس وائٹ ہاؤس کی چیف آف اسٹاف سوزی وائلز، ٹرمپ کی وکیل لنزے ہیلیگن، مشیر راجر اسٹون، اور سابق اداکارہ اسٹورمی ڈینیئلز کی ای میلز پر مشتمل تقریباً 100 گیگا بائٹس کا ڈیٹا موجود ہے ۔رابرٹ نے اس ڈیٹا کو فروخت کرنے کے امکان کا ذکر کیا، تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ وہ کب یا کس طرح اسے جاری کریں گے ۔ انہوں نے ای میلز کے مواد سے متعلق بھی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی۔امریکی اٹارنی جنرل پَم بانڈی نے اس واقعے کو ناقابل معافی سائبر حملہ قرار دیا، وائٹ ہاؤس اور ایف بی آئی کی جانب سے جاری بیان میں ایف بی آئی ڈائریکٹر کاش پٹیل نے کہا کہ ‘جو کوئی بھی قومی سلامتی کی خلاف ورزی میں ملوث پایا گیا، اس کے خلاف مکمل تحقیقات ہوں گی اور قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی’۔امریکی سائبر ڈیفنس ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ ‘اس نام نہاد سائبر حملے کی اصل حقیقت صرف ڈیجیٹل پروپیگنڈا ہے ، اور اہداف کا انتخاب اتفاقیہ نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے ، جس کا مقصد صدر ٹرمپ کو نقصان پہنچانا اور ان افراد کو بدنام کرنا ہے جو دیانتداری سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں’۔لنزے ہیلیگن، راجر اسٹون، اور اسٹورمی ڈینیئلز کے ترجمانوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا، جبکہ اقوامِ متحدہ میں ایران کے مشن نے بھی رائٹرز کی جانب سے بھیجا گیا پیغام واپس نہیں کیا، ایران ماضی میں سائبر جاسوسی کے الزامات کی تردید کرتا رہا ہے ۔‘رابرٹ’ پہلی بار 2024 کے صدارتی انتخابی مہم کے آخری مہینوں میں منظرِ عام پر آیا، جب اس نے صدر ٹرمپ کے متعدد اتحادیوں کے ای میل اکاؤنٹس ہیک کرنے کا دعویٰ کیا، جن میں سوزی وائلز بھی شامل تھیں اور پھر کچھ ای میلز صحافیوں کو فراہم کی گئیں۔رائٹرز نے ان میں سے کچھ مواد کی تصدیق کی، جن میں ایک ای میل میں سابق صدارتی امیدوار رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر (جو اب ٹرمپ کی کابینہ میں وزیرِ صحت ہیں) کے وکلا کے ساتھ مالی معاہدے کا ذکر تھا، دیگر ای میلز میں انتخابی مہم کی اندرونی معلومات اور اسٹورمی ڈینیئلز سے متعلق قانونی معاملات پر بات چیت شامل تھی۔اگرچہ ان انکشافات کو کچھ میڈیا کوریج ملی، لیکن یہ صدارتی انتخاب پر کوئی بڑا اثر ڈالنے میں ناکام رہے اور ٹرمپ نے انتخاب جیت لیا۔ستمبر 2024 میں امریکی محکمۂ انصاف نے ایک فرد جرم میں الزام عائد کیا کہ ‘رابرٹ’ نامی ہیکنگ آپریشن ایران کی پاسدارانِ انقلاب کے زیر نگرانی چلایا جا رہا ہے ، تاہم ہیکرز نے رائٹرز سے گفتگو میں اس الزام پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کیا۔ٹرمپ کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کے بعد، رابرٹ نے رائٹرز کو بتایا تھا کہ اب مزید کوئی لیکس نہیں ہوں گی، مئی میں بھی انہوں نے کہا کہ ‘میں ریٹائر ہو چکا ہوں’۔لیکن رواں ماہ ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ فضائی جنگ اور امریکہ کی جانب سے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر بمباری کے بعد یہ گروپ دوبارہ سرگرم ہو گیا۔اس ہفتے کے پیغامات میں رابرٹ نے کہا کہ وہ چوری شدہ ای میلز کی فروخت کا بندوبست کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رائٹرز اس معاملے کو عالمی سطح پر اجاگر کرے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ ایران کے سائبر اقدامات پر لکھنے والے ماہر فریڈرک کیگن نے کہا کہ ایران کو حالیہ جنگ میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے ، اور ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیاں ایسے راستے تلاش کر رہی ہیں جن سے وہ جوابی کارروائی کر سکیں مگر امریکہ یا اسرائیل کی براہِ راست فوجی کارروائی سے بچا جا سکے ۔انہوں نے کہا کہ ‘ممکنہ وضاحت یہی ہے کہ سب کو حکم ملا ہے کہ وہ ہر وہ غیر روایتی طریقہ اپنائیں جس سے بھرپور فوجی ردعمل نہ آئے ، مزید ای میلز لیک کرنا ایسی ہی ایک کارروائی ہو سکتی ہے ’۔اگرچہ ایران کی طرف سے بڑے سائبر حملوں کا خدشہ موجود ہے ، لیکن حالیہ کشیدگی کے دوران ایران کے ہیکرز نسبتاً خاموش رہے ، تاہم امریکی سائبر حکام نے پیر کو خبردار کیا کہ ایران اب بھی امریکی کمپنیوں اور اہم انفرااسٹرکچر کو نشانہ بنا سکتا ہے ۔