2015 ء میں دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ کئے گئے معاہدہ کے وضع کردہ دائرہ کار پر عمل کرنے پر زور
ایران کی پارلیمنٹ سے صدر حسن روحانی کا خطاب
تہران ۔ 3 ۔ ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) صدر ایران حسن روحانی نے آج ایک بار پھر امریکہ کے ساتھ دو رخی بات چیت کے امکانات کو مسترد کردیا اور یہ انتباہ بھی دیا کہ نیوکلیئر معاہدہ کے تعلق سے ایران اپنے وعدہ کی پابندی سے اندرون کچھ دن بری الزمہ ہوجائے گا ۔ پارلیمنٹ سے اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ کسی بھی نوعیت کی بات چیت اسی دائرہ کار میں رہ کر کی جائے گی جو 2015 ء میں ایران نے دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت وضع کیا تھا ۔انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر یوروپی ممالک کے ساتھ بات چیت کے جمعرات تک کوئی نتائج سامنے نہیں آتے ہیں تو اس صورت میں ایران آنے والے کچھ دنوں میں اپنی ذمہ داریوں کو مزید کم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ایک بار پھر ضروری ہے کہ ایران اور امریکہ کے باہمی تعلقات گزشتہ سال مئی سے کشیدگی کا شکار ہیں، جب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اچانک ایران کے نیوکلیئر معاہدہ سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر ایک بار پھر تحدیدات کا نفاذ کردیا تھا ۔ دوسری طرف ماہ جون میں ایک دوسرے کے کٹر دشمن یعنی امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ چھڑ جانے کے اندیشے بھی پیدا ہوگئے تھے ، جب ایران نے امریکہ کا ایک ڈرون مار گرایا تھا اور امریکہ نے بھی ایران کو کرارہ جواب دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن لمحۂ آخر میں امریکہ نے ایران کے ساتھ ٹکراؤ کے موقف سے دستبرداری اختیار کرلی ۔ اس دوران فرانس ایک ایسا ملک بن کر ابھرا جس نے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے حال ہی میں اختتام پذیر G-7 چوٹی کانفرنس میں صدر فرانس ایمانیول میکرون نے کہا تھا کہ وہ جلد سے جلد حسن روحانی اور ڈونالڈ ٹرمپ کی ملاقات کو یقینی بنائیں گے جبکہ ایران کی سرکاری ویب سائیٹ پر حسن روحانی نے یہ واضح طور پر کہا ہے کہ اصولاً ہم امریکہ سے کوئی دو رخی بات چیت نہیں کرنا چاہتے ۔ امریکہ جب تک ایران پر عائد تحدیدات کو برخواست نہیں کردیتا اس وقت تک بات چیت ممکن نہیں اور تحدیدات کا اعلان بھی 5+1 میٹنگ میں ہونا چاہئے ۔ جیسا کہ ماضی میں ہوچکا ہے ۔
روحانی کا اشارہ اسی 2015 ء کے نیوکلیئر معاہدہ کی جانب تھا ۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت کے لئے ہم کو (ایران) کئی بار پیشکش کی جا چکی ہے لیکن ہم نے ہمیشہ نفی میں جواب دیا ۔ امریکہ نے جس وقت ایران کے نیوکلیئر معاہدہ سے دستبرداری اختیار کی تھی اسی وقت ایران نے امریکہ کو بھی جوابی کارروائی کا انتباہ دیا تھا ۔ معاہدہ کے مطابق ایران کو تحدیدات سے راحت دیئے جانے کا وعدہ کیا تھا جس کے عوض ایران کو اپنے نیوکلیئر پروگرام میں تخفیف کرنا تھی ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ گزشتہ سال امریکہ اچانک ایران کے نیوکلیئر معاہدہ سے الگ ہوگیا تھا ۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ایران نے یورانیم افزودگی میں اضافہ کے ساتھ ذخیرہ میں بھی ا ضافہ کر دیا ہے ۔ حسن روحانی کے مطابق اب تیسرا قدم بھی عنقریب اٹھایا جائے گا لیکن اس کیلئے شرط یہ ہے کہ ا یران نیو کلیئر معاہدہ سے وابستہ دیگر ممالک اپنے وعدوں کی پابندی پر قائم رہیں اور اگر ایسا نہیں ہوا تو ایران تیسرا قدم بھی اٹھانے پر مجبور ہوگا، جس کے لئے جمعرات تک انتظار کیا جارہا ہے ۔ تاہم حسن روحانی نے مندرجہ بالا تمام اقدامات کو واپس لینے کے امکانات کو بھی مسترد نہیں کیا ۔
