ایران : اب حکومت حامی ہز اروں افراد سڑکوں پر نکل آئے

   

حکومت مخالف ’بلوائیوں‘ کو پھانسی دینے کا مطالبہ، امن کو یقینی بنانے کیلئے ’’دشمن کا مقابلہ‘‘ کرینگے: ایرانی فوج کی وارننگ

تہران : ایران میں ایک طرف کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاج کا سلسلہ زور شور سے جاری ہے تو دوسری جانب حکومت کی حمایت میں بھی ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔اے ایف پی کے مطابق جمعہ کو تہران اور اہواز، اصفہان، قم اور تبریز سمیت دیگر شہروں میں حکومت کی حمایت یافتہ جوابی ریالیوں میں ہزاروں افراد حجاب اور قدامت پسند ڈریس کوڈ کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے۔ جن میں احتجاجی مارچ کرنے والے ’بلوائیوں‘ کو پھانسی دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔یہ مظاہرہ حکام کی جانب سے اب تک کی سخت ترین وارننگ کے بعد ہو رہے ہیں۔ جس میں فوج نے کہا ہے کہ وہ اس بے چینی کے پیچھے چھپے دشمنوں کا مقابلہ کرے گی۔ یہ انتباہ اسی طرز کی کارروائی کا اشارہ ہو سکتا ہے جس میں ماضی میں ہونے والے احتجاجوں کو کچل دیا گیا تھا۔ایران کی مہر خبر رساں ایجنسی نے بتایا ہے کہ ’مذہب کے خلاف سازشوں اور توہین آمیز واقعات کی مذمت کرنے والے ایرانی عوام کا عظیم مظاہرہ آج ہوا۔‘سرکاری ٹیلی ویژن نے وسطی تہران میں حجاب کے حامی مظاہرین کی فوٹیج نشر کی جن میں سے کئی مرد بلکہ خواتین بھی سیاہ چادروں میں ملبوس تھیں۔ واضح رہے کہ نوجوان خاتون کی ہلاکت نے پہلے سے حساس معاملات بشمول شخصی آزادی پر پابندی، خواتین کے لیے مخصوص ڈریس کوڈ اور پابندیوں سے دوچار معیشت کے خلاف غم و غصے میں دوبارہ اضافہ کردیا ہے۔ایران کے علماء، حکمراں کو 2019 میں پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف ہونے والے شدید مظاہروں کے طرز کے مظاہروں کا ایک بار پھر خوف ہے، جو اسلامی جمہوریہ ایران میں سب سے خونی مظاہرے تصور کیے جاتے ہیں۔ایران کی افواج نے کہا ہے کہ ملک میں سیکیورٹی اور امن کو یقینی بنانے کے لیے ’دشمن کا مقابلہ‘ کریں گے جیسا کہ ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں خاتون کے قتل پر ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں میں تیزی آئی ہے۔اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی فوج نے کہا ہے کہ ’اس طرح کے پریشان کن حالات اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کے لیے دشمن کی چال کا حصہ ہیں‘۔ بابول میں آن لائن شیئر کی گئی ویڈیوز میں مظاہرین کو ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصویر والے ایک بڑے بل بورڈ کو نذر آتش کرتے ہوئے دیکھا گیا۔اوسلو میں قائم ایک تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے بتایا ہے کہ حکومت مخالف مظاہروں میں سیکوریٹی فورسز کے ہاتھوں اب تک کم سے کم 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ایران ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ اس کی تازہ ترین 50 ہلاکتوں میں 6 افراد شامل ہیں جو جمعرات کی رات شمالی گیلان صوبے کے قصبے ریزوانشاحر میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے جبکہ دیگر اموات بابول اور امول میں ریکارڈ کی گئیں۔نیو یارک میں قائم سینٹر فار ہیومن رائٹس ان ایران کے پچھلے اعدادوشمار کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 36 تھی۔سڑکوں پر ہونے والا تشدد جس کے بارے میں انٹرنیشنل ہیلتھ ریگولیشنز کا کہنا ہے کہ 80 قصبوں اور شہروں میں پھیل چکا ہے۔ایران میں اس وقت عوامی سطح پر مظاہرے شروع ہوئے جب گزشتہ ہفتہ ایران کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں غیر موزوں لباس پہننے پر گرفتار 22 سالہ نوجوان خاتون مہسا امینی ہلاک ہوگئی تھیں۔