ایران اب نیوکلیئرمعاہدے پر عمل نہیں کرے گا

,

   

امریکہ کیساتھ زبانی جنگ میں تیزی ، مغربی ایشیا میں کشیدگی عروج پر ، ایران کے 52 مقامات کو نشانہ بنانے امریکہ کی یاد دہانی

تہران۔6 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ایران نے کہا کہ جب تک اس پر سے پابندی ہٹائی نہیں جاتی، تب تک وہ سال 2015 کے نیوکلیئرمعاہدے پر عمل نہیں کرے گا۔ایرانی خبررساں ایجنسی نے سرکاری بیان کے حوالے سے بتایا کہ ایرانی حکومت نے کہا ہے کہ جب تک اس پر سے پوری طرح پابندی نہیں ہٹائی جاتی وہ 2015 کے نیوکلیئرمعاہدے پر عمل نہیں کرے گا۔امریکہ کی جانب سے بغداد ہوائی اڈے کے قریب کئے گئے ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کے مارے جانے کے دو دن بعد ایران نے کہا ہے کہ اس نے اب 2015 کے نیوکلیئر معاہدے پر عمل نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ بیان کے مطابق ایران نے کہا کہ وہ اپنے عہد سے پیچھے ہٹنے کے پانچویں مرحلے میں نیوکلیئرمعاہدے کو ترک کررہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب ایران کے نیوکلیئرپروگرام کو اپنی اعلی تیکنک کی ضرورت ہے ۔ایران نے کہا ہے کہ اگر پابندی ہٹا دی جاتی ہیں تو وہ اپنی نیوکلیائی عہد بستگی پر پھر سے عمل کرے گا۔واضح رہے کہ جمعہ کو بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امریکی ڈرون حملے میں سلیمانی اور ایران کی تائید یافتہ تنظیم شیعہ پاپولر موبلائزیشن فورس کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس سمیت کئی افراد ہلاک ہوگئے تھے ۔ایران کے اعلی لیڈر آیت اللہ علی خامنہ اي نے اس حملے کا ‘سخت انتقام’ لینے کا عہد کیا ہے ۔ایران کے صدر حسن روحانی نے بھی کہا ہے کہ امریکہ کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکہ کی جانب سے کئے گئے فضائی حملے میں ایرانی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے کئی معاونین کے مارے جانے کے بعد پیر کو دونوں ممالک کے درمیان زبانی جنگ مزید تیز ہو گئی اور مغربی ایشیا میں کشیدگی میں اضافہ ہوگیا۔ایرانی حمایت یافتہ باغی امریکی فوجیوں کو نشانہ بناتے ہوئے مسلسل حملے کر رہے ہیں ہے ۔ بغداد کے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے اور اہم سرکاری دفاتر پر اتوار کی شام چار مارٹر داغے گئے ۔ایک افسر نے بتایا کہ اس واقعہ میں گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے اور عراق کے سرکاری دفتر پر چار مارٹر داغے گئے ۔ ذرائع کے مطابق ایک موٹارر امریکی سفارت خانے کے قریب دریائے دجلہ کے کنارے گرا۔ہفتہ کے روز شیعہ حزب اللہ کے باغی لیڈر ابو علی العسکری نے عراقی سکیورٹی فورسز کو امریکی ٹھکانوں سے ہٹنے کی وارننگ دی تھی۔ اس کے بعد ہی یہ واقعہ پیش آیا۔اس حملے سے دو دن قبل جمعہ کو امریکہ کے بغداد کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر ڈرون حملے میں ایرانی کمانڈر جنرل سلیمانی کے علاوہ ایران تائید یافتہ تنظیم شیعہ پاپولر موبلائزیشن فورس کے نائب سربراہ ابو مہدی المہندس سمیت کئی افراد ہلاک ہوئے تھے ۔ان حملوں کی وجہ سے ان ممالک میں رہ رہے اپنے شہریوں کی حفاظت کے تعلق سے کئی ممالک کو تشویش ہونے لگی ہے ۔ایرانی صدر حسن روحانی نے امریکہ کو انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران اس خطے میں کشیدگی نہیں چاہتا ہے لیکن امریکہ خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے غلط کام کر رہا ہے اور اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ روحانی نے قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمن التھانی کے ساتھ ملاقات کے دوران کہا کہ امریکہ نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا ہے جو اس خطے کے لئے کافی خطرناک ہے ۔اس کشیدگی کے درمیان ایران نے کہا ہے کہ جب تک تہران سے پوری طرح پابندی نہیں ہٹائی جاتی ، تب تک وہ امریکہ کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدے پر عمل نہیں کرے گا۔ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان عباس موساوی نے اتوار کے روز کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے تعاون اور نیوکلیئر معاہدے پر بحث کے بارے میں موقف اب بھی وہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیوکلیئر معاہدے پر بات چیت شروع کرنے کی بنیادی شرط امریکہ کی طرف ایران پر لگائی پابندی ہٹانا ہی ہے ۔دوسری جانب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران کسی بھی امریکی شہری یا امریکی ریاست پر حملہ کرتا ہے تو اس پر بہت جلد اور بہت بڑا حملہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ نے 52 ایرانی مقامات کی نشاندہی کر رکھی ہے جو کہ ثقافتی طور پر ان کے لئے انتہائی اہم ہیں۔انہوں نے کہا کہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایران کے فوجی کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی نے اپنی زندگی میں کتنے لوگوں کو مارا ہے اور ان میں حال ہی میں ایران میں ہلاک ہوئے مظاہرین شامل تھے اور امریکی سفیر پر حملہ کیا تھا اور دیگر مقامات پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔