حیدر عباس
گزشتہ سال یعنی 2022ء میں بھی اسرائیل اور اس کے حامی ملکوں بالخصوص فرانس، جرمنی اور برطانیہ کی یہی خواہش رہی کہ ایران کو کسی بھی طرح جوہری طاقت بننے سے روکا جائے۔ سال 2022ء ان ہی کوششوں میں گذر گیا اور دنیا کی خود ساختہ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایران کا جوہری معاہدہ نہ ہوسکا۔ اس معاملے میں اسرائیل سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایران جوہری طاقت بن کر اس کی بقاء کیلئے چیلنج بنے۔ بہرحال نئے سال کی آمد کے ساتھ ہی ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کے تازہ بادل چھانے لگے ۔ واضح رہے کہ ستمبر 2022ء میں جب فرانس، جرمنی اور برطانیہ جوہری معاملت پر ایران کے خلاف آواز اٹھانے کی خاطر یکجا ہوئے جس کی یقینا اسرائیل نے تعریف و ستائش کی۔ مذکورہ تینوں ملکوں نے اپنے اجلاس میں اس بات کے خدشات بلکہ خوف ظاہر کیا کہ ایران جوہری بم کی تیاری کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے۔ ساتھ ہی ان تینوں ملکوں نے حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد کے ساتھ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کو اسرائیل کے خلاف ایران کی تائید و حمایت پر بھی اپنی توجہ مرکوز کی۔ اس اجلاس سے ایران کے خلاف اسرائیل کے حوصلے بلند ہوئے۔ ویسے بھی اسرائیل کسی بھی قیمت پر یہ نہیں چاہتا کہ عالمی طاقتیں ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کریں۔ اگر ایسا کوئی معاہدہ ہوتا ہے تو وہ اسرائیل کی ناکامی اور ایران کی کامیابی ہوگی۔ دوسری طرف ایران بھی پرزور انداز میں یہ کہنے لگا ہے کہ سب سے پہلے اس پر عائد ناجائز پابندیوں کو ہٹایا جائے۔یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سال 2015ء میں ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری معاہدہ طئے پایا تھا لیکن اسرائیل اور اس کے حامی ملکوں کے دباؤ پر سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے عہدۂ صدارت سے جاتے ہوئے اس معاہدہ کو ختم کردیا اور ٹرمپ کے اس اقدام کو اسرائیل کے دباؤ کا نتیجہ ہی قرار دیا جارہا ہے۔ اسرائیل ہمیشہ سے یہی کہتا رہا ہے کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان طئے پایا جوہری معاہدہ کامیاب ہوجاتا ہے یا پھر پانچ بڑی طاقتوں کے ساتھ ایران جوہری معاہدہ طئے کرلیتا ہے تو پھر ایران کو پابندیوں سے راحت ملے گی۔ نیوکلیئر ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق ماہرین کا خیال ہے کہ ایران ، جوہری بم بنانے کیلئے درکار یورینیم کی مقدار حاصل کرچکا ہے اور جوہری بم بنانے کیلئے 60% افزودہ یورینیم مقدار کافی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل، مغربی ایشیا میں ایسا ملک ہے جو سب سے زیادہ نیوکلیئر اسلحہ کا ذخیرہ رکھتا ہے جس کے باعث اسرائیل کو اپنے تمام پڑوسی ملکوں پر برتری حاصل ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسرائیل کو گزشتہ 70 برسوں سے امریکہ کی غیرمتزلزل تائید حاصل ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکہ سے لے کر دوسری عالمی طاقتوں اور جوہری توانائی کی عالمی ایجنسی کو اسرائیل کے جوہری اسلحہ کے ذخائر نظر نہیں آتے۔ وہ اس پر اعتراض نہیں کرتے۔ جہاں تک ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی کا سوال ہے، اسرائیلی فوج نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ اگر اس کے سیاسی ادارے (اسرائیلی حکومت) جب بھی حکم دے گی، وہ ایران کو اپنے حملوں کا نشانہ بنانے کیلئے تیار ہے۔ اسرائیلی فوج کا یہ اعلان صرف اُس واقعہ کے اندرون 15 یوم منظر عام پر آیا جو شام۔ عراق سرحد کے قریب پیش آیا جس میں ایرانی اسلحہ لے جانے والے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل کے اس حملے میں تقریباً 10 افراد مارے گئے۔ ’’ٹائمس آف اسرائیل‘‘ کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی شعبہ دفاع کے سربراہ ابیب کوہاوی نے اسرائیلی فورس کی صلاحیتوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی پائیلٹس نے میزائل حملے سے بچتے ہوئے ٹرک نمبر 8 کو نومبر کے اوائل میں نشانہ بنایا۔
شامی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل نے جس ٹرک کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے، وہ دراصل ایک فیول ٹینکر تھا۔ دوسری جانب ایران نے دعویٰ کیا کہ اس نے نومبر 2022ء میں ساحل عمان پر ایک اسرائیلی آئیل ٹینکر کو اپنے حملے کا نشانہ بنایا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ موقف اس وقت منظر عام پر آیا جب اسرائیل اور امریکہ نے بہت بڑی فضائی مشق کا اہتمام کیا۔ یہ بات ’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتائی۔ اس مشترکہ فضائی مشق کا مقصد ایران کے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا ہے اور اس کی تیاری کے طور پر یہ مشق کی گئی۔ بحیرۂ روم اور اسرائیل پر کی گئی مشترکہ مشق طویل فاصلوں تک پرواز پر مشتمل تھی ناکہ اسرائیلی پائیلٹس بہ آسانی ایران پنچ سکیں۔ (حملہ کی صورت میں) اس میں ری فیولرس اور لڑاکا طیارے شامل تھے، یعنی اسرائیل کے ری فیولرس اور لڑاکا طیاروں کو بھی فضائی مشق میں شامل کیا گیا۔ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ اگر حملہ ہوتا ہے تو امریکہ ایک سرگرم کردار ادا کرے گا۔ ان حالات میں روس، ایران کی طرف سے کود پڑے گا، کیونکہ روس اور ایران روایتی شراکت دار ہیں۔ اس کے علاوہ ایران نے روس کی کھلی تائید کرتے ہوئے یوکرین کی جنگ میں حصہ لیا۔ آپ کو بتادیں کہ کوہاوی نے نومبر میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وہ اگلے ماہ اپنی خدمات سے سبکدوش ہورہے ہیں۔ جہاں تک ایران کا سوال ہے ، اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ اگر اسرائیل اُس پر حملہ کرے گا تو پھر وہ تل ابیب ، حائفہ اور اسرائیل کی نیوکلیئر تنصیبات کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردے گا ۔ اسرائیلی میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایران کے انقلابی گارڈس کسی بھی حملے کے اندرون 7 منٹ اسرائیل میں واقع نشانوں کو مار گرائیں گے اور پھر راکٹوں کی دوسری لہر شروع کی جائے گی۔