تہران، 22 جولائی (یو این آئی) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ تہران جوہری افزودگی پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، جوہری پروگرام ایران کے قومی وقار کا سوال بن چکا ہے ۔ فاکس نیوز کو انٹرویو میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے یہ بھی تسلیم کیا کہ امریکی حملوں سے ایران کے ایٹمی پروگرام کو شدید نقصان پہنچا ہے ، تاہم عباس عراقچی نے واضح کیا کہ امریکہ کی یہ بنیادی خواہش بین الاقوامی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود شاید پوری نہ ہو سکے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم افزودگی ترک نہیں کرسکتے کیوں کہ یہ ہمارے سائنسدانوں کی ایک کامیابی ہے ، اب اس سے بھی بڑھ کر، یہ ہمارے قومی وقار کا مسئلہ ہے ، ہماری افزودگی ہمیں بہت عزیز ہے ۔ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ گزشتہ ماہ امریکی حملوں سے ایران کی جوہری تنصیبات کو سنگین نقصان پہنچا ہے ، لیکن انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ آیا کوئی افزودہ یورینیم محفوظ رہا یا نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری تنصیبات کو سنگین نوعیت کا نقصان پہنچا ہے ، نقصان کا تخمینہ فی الحال ہماری ایٹمی توانائی تنظیم لگا رہی ہے ، فی الحال یہ نقصان افزودگی کے تمام عمل کو معطل کرچکا ہے ۔‘جوہری ہتھیار نہیں بنا رہے لیکن دنیا کو خدشات ہیں’ ایران طویل عرصے سے یہ موقف رکھتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش نہیں کر رہا، لیکن اسرائیلی اور امریکی حملوں سے پہلے سیکیورٹی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ تہران کچھ ہی دنوں میں ایک جوہری ہتھیار اور چند ہفتوں میں کئی وار ہیڈز تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
ایٹمی توانائی کا تناسب اور امریکہ کی تجویز اگرچہ جوہری افزودگی اُن ممالک کے لیے ضروری ہے جو ایٹمی توانائی پر انحصار کرتے ہیں، ایران کی توانائی کا صرف ایک فیصد سے بھی کم حصہ ایٹمی ذرائع سے حاصل ہوتا ہے ۔امریکہ نے تجویز پیش کی ہے کہ ایران اپنی شہری ضروریات کے لیے متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ مل کر افزودہ یورینیم حاصل کرے ، لیکن ایران نے یہ تجویز مسترد کر دی ہے ۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ ‘دنیا میں ایسے ممالک کی تعداد جو مکمل جوہری ایندھن سائیکل حاصل کر چکے ہیں، شاید کسی کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے بھی کم ہو، ہم کان سے بجلی گھر تک، مکمل ایندھن تیار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اگر ایران نے اگست کے آخر تک کوئی نیا جوہری معاہدہ نہ کیا، تو اس پر مزید سخت بین الاقوامی پابندیاں اور اسلحے کی پابندیاں لگ سکتی ہیں، تاہم یہ واضح نہیں کہ اس معاہدے میں امریکہ کی شمولیت ضروری ہے یا صرف یورپی ممالک (فرانس، جرمنی، برطانیہ) کی۔ایران آج (منگل کو) اپنے اہم اتحادیوں چین اور روس کے ساتھ ملاقات کرے گا، جب کہ جمعے کو ای3 ممالک کے ساتھ مذاکرات ہوں گے ۔واشنگٹن اور تہران کے درمیان امریکی حملوں کے بعد تاحال براہ راست بات چیت بحال نہیں ہوئی۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں ایرانی وزیر خارجہ نے غزہ میں امداد لینے والوں پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ غزہ مزاحمت اور جبر کی علامت ہے ، قابض اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ہتھکنڈہ استعمال کر رہی ہے ۔