ایران: مظاہروں پر اکسانے والی پوسٹ پر سزائے موت

   

تہران: ایران کی عدالت نے 2022 میں ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی زیرحراست موت پر ہونے والے مظاہروں کے دوران آن لائن پوسٹ کرنے پر ایک شخص کو موت کی سزا سنادی ہے۔ عدلیہ نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ خواتین کے لباس کے سخت ضابطے کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران کئی ماہ تک مظاہروں کی زد میں رہا۔ایران میں عدلیہ کی آن لائن ویب سائٹ ’میزان‘ نے کہا ہیکہ ایرانی شخص محمود محرابی سوشل میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کرنے کا قصور وار پایا گیا جس میں گھریلو ہتھیاروں کے استعمال اور عوامی املاک کو تباہ کرنے کے بارے میں اْکسایا گیا تھا۔عدالت نے محمود محرابی کو قتل عام پر اْکسانے اور مذہبی فریضے کی ادائیگی کی توہین کرنے کا مجرم قرار دیا ہے۔ وکیل بابک فرسانی نے کہا ہیکہ محمود محرابی کو ’فساد فی الارض‘ کے سنگین جرم کا قصور وار قرار دیا گیا ہے۔ سزا کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی جا سکتی ہے۔ 2022 میں ایرانی۔کرد خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد کئی ماہ مظاہروں اور جھڑپوں میں درجنوں ہلاکتیں ہوئیں۔
سیکورٹی اہلکاروں سمیت سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
حکام نے فسادات اور جلاؤ گھیراؤ پر قابو پانے اور امن عامہ برقرار رکھنے کے لیے ہزاروں مشتعل مظاہرین کو گرفتار کیا تھا۔قبل ازیں ایران کی ایک عدالت نے مقبول گلوکار توماج صالحی کو بھی احتجاجی مظاہروں کی حمایت کرنے پر گزشتہ ماہ سزائے موت سنائی تھی۔علاوہ ازیں احتجاج کے دوران سیکورٹی فورسز کے خلاف تشدد، قتل اور دیگر مختلف مقدمات میں نو افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2023 میں ایران میں 853 افراد کو پھانسی دی گئی جو 2015 کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔