ایران کے صدارتی امیداور ابراہیم رئیسی پر سنگین الزامات

   

تہران: ایران کے صدارتی انتخابات میںشامل امیدوار ابراہیم رئیسی کے خلاف مہم چلانے والوں کا الزام ہے کہ انہوں نے حزب اختلاف کے ہزاروں قیدیوں کو پھانسی دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اے ایف پی نیوز ایجنسی کے مطابق انتخابات سے متعلق سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ ابراہیم رئیسی کو اپنے ملک کی قیادت کرنے کے بجائے بین الاقوامی انصاف کا سامنا کرنا چاہئے۔ابراہیم رئیسی نے عدلیہ میں اپنے عہدے کا استعمال سیاسی قیدیوں پر اجتماعی پھانسی سمیت، حقوق انسانی کی سنگین پامالیوں کے لئے استعمال کیا۔60 سالہ ابراہیم رئیسی نے 1979 کے انقلاب ایرن کے فورا بعد ہی اہم عہدوں پر کام کیا ہے۔صرف 20 سال کی عمر میں وہ ضلع کراج اور پھر ہمدان صوبے کے لئے پراسیکیوٹر مقرر ہوئے اس کے بعد انہیں تہران کے نائب پراسیکیوٹر کی حیثیت سے ترقی دی گئی۔رئیسی جنہیں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ممکنہ جانشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے، انہوں نے1988 میں ہونے والی نسل کشی میں ذاتی طور پر ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔وہ 1989میں تہران کے چیف پراسیکیوٹر بنے اور پھر2004 میں نائب عدلیہ کے سربراہ کے عہدے پر 10 سال تک فائز رہے۔2019 سیعدلیہ کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ایران میں سزائے موت کے خلاف مہم چلانے والے لندن میں قائم جسٹس برائے ایران کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر شادی صدر نے کہا ہے کہ رئیسی کی جگہ ایوان صدر نہیں۔شادی صدر نے کہا ابھی صرف اتنی حقیقت ہے کہ وہ عدلیہ کے سربراہ ہیں اور ملک کے صدر کے لئے انتخاب لڑ رہے ہیں۔انسانی حقوق کے بیشتر اداروں اورمورخین کا کہنا ہے کہ 1988میں انقلابی رہنما آیت اللہ خمینی کے براہ راست احکامات کے پیش نظر چار ہزار سے پانچ ہزار کے درمیان ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ایران کی قومی مزاحمتی کونسل (این سی آر آئی) کے سیاسی شعبے نے یہ تعداد 30 ہزار کے قریب بتائی ہے۔این سی آر آئی کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ایک رکن حسین عابدینی نے رئیسی کوسخت گیر طبیعت کا مالک کہا ہے۔