محمد مبشر الدین خرم
مقتدر شاہ ہویا عام شہری اس کی اپنے ملک سے محبت اور سرزمین سے لگاؤ کی ایک مثال اس فرزند مملکت دکن آصفیہ نے شہر حیدرآباد میں اپنے دفن کی وصیت کے ساتھ قائم کی ہے جس نے اپنی عمر کا طویل حصہ دیار غیر میں گذارنے کو نہ صرف ترجیح دی بلکہ وہ اس سیاسی نظام سے دور رہتے ہوئے اپنی زندگی گذاری جو کہ مختلف نشیب و فراز کا حصہ رہی لیکن اس کے باوجود مکرم جاہ کی یہ وصیت کہ انہیں ان کے اپنے شہر میں سپر لحد کیا جائے اس بات کوثابت کرتا ہے کہ انہیں اپنے ملک و رعایاسے کس قدر لگاؤ تھا اور وہ کس حد تک اپنی سرزمین سے محبت کرتے تھے۔مکرم جاہ بہادر اگر چاہتے تو اپنے نانا خلیفہ عبدالمجید ثانی کی طرح کسی مسلم مملکت میں دفن ہونے کی خواہش کا اظہار کرسکتے تھے اور اسی طرح کی وصیت کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اپنے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں دفن کی وصیت کے ذریعہ نا صرف اپنی سرزمین سے محبت کو واضح کیا بلکہ اب تک دیار غیر میں زندگی گذارنے کا کرب بھی اس وصیت سے واضح ہوتا ہے۔مکرم جاہ بہادر کی زندگی کے بیشتر پہلوؤں سے لوگ واقف نہیں تھے لیکن ان کی وصیت نے یہ فکر کرنے پر مجبور کردیا کہ آخر انہوں نے اپنی ابدی زندگی کی سمت کوچ کے لئے کیونکر سرزمین حیدرآباد کو منتخب کیا !مکرم جاہ بہادر کو اپنی سرزمین سے بہ پناہ لگاؤ تھا اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن دنیا کے مختلف مقامات پر زندگی گذارنے کے باوجود اپنی ہی ریاست میں دفن کی خواہش نے ان کی مادروطن سے انسیت اور اس سے دور رہنے کے درد کے اظہار کے لئے کافی ہے۔
نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کے جنازہ میں شریک شہریان حیدرآباد نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے محسن کی خدمات کو فراموش نہیں کرسکتے خواہ وہ ان کے درمیان رہے یانا رہے‘ ان کی دادرسی کرے یا نہ کرے‘ اقتدار سے محروم حکمراں سے بھی رعایا کی محبت نے ثابت کیا کہ حیدرآباد اپنی تاریخ کو فراموش نہیں کیا ہے اور نہ ہی اہل حیدرآباد اپنے ان حکمرانوں کو فراموش کرسکتے ہیں جنہوں نے اپنے دور اقتدار میں رعایاپروری کی مثالیں قائم کی ہیں۔نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کو ان کے دادا آصف سابع نواب میر عثمان علی خان نے اپنا جانشین نامزد کرنے کے بعد حکومت ہند کو روانہ کردہ مکتوب میں اس بات کی خواہش کی تھی کہ حکومت ہند مکرم جاہ بہادرکو آصف ثامن تسلیم کرے ۔ حکومت ہند کی جانب سے آصف ثامن کو تسلیم کئے جانے اور انہیں نظام دکن قبول کئے جانے کے باوجود انہوں نے اپنے زندگی کا بیشتر حصہ اپنے ننھیال ترکی میں گذارنے کو ترجیح دی۔ مکرم جاہ بہادرنے عوامی زندگی نہیں گذاری لیکن جب کبھی وہ حیدرآباد آتے تو اپنے رفقاء‘ احباب ‘ خدام اورخواص سے ضرور ملاقات کرتے اور انہیں بغرض سلام حاضر ہونے کی اجازت مرحمت فرماتے ‘ انضمام حیدرآباد بالخصوص ریاست آندھراپردیش کی تاسیس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی وہ اس خانوادۂ کے لئے ناگفتہ بہ رہی شائد اسی لئے آصف ثامن نے ہندستان میں رہنے یا ان کے بعد حکمران طبقہ کے ساتھ زندگی گذارنے سے پرہیز کرتے ہوئے اپنے ہی ملک سے دور زندگی گذاری ۔
مکرم جاہ بہادر‘ بہادر شاہ ظفر جتنے بدنصیب نہیں رہے کیونکہ بہادر شاہ ظفر کو یہ کہنا پڑا تھا کہ:
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ مل سکی کوئے یار میں
سرزمین دکن مکرم جاہ بہادر کے سایۂ عاطفت سے محروم رہی اور 1948کے حالات و انضمام کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سرزمین دکن کی یہ محرومی ریاست کی بدنصیبی رہی ۔ آصف سابع نے جن حالات میں اپنے فرزند نواب میر حمایت علی خان اعظم جاہ بہادر کے بجائے اپنے پوترے کو اپنا جانشین بنایا ان وہ ان کی دوراندیشی کو واضح کرتا ہے اور ساتھ ہی مکرم جاہ بہادر نے نائب صدر جمہوریہ کا عہدہ قبول کرنے سے انکار کے علاوہ آنجہانی پنڈت جواہر لعل نہرو کے خصوصی قاصد برائے عرب ممالک بننے سے بھی انکار کے سلسلہ میں انہوں نے تو کبھی کسی سے کچھ کہا نہیں لیکن ان کی ملک سے دوری اور بعداز مرگ اپنی سرزمین میں تدفین سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کیوں ان عہدوں کو قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں تھے۔صدرجمہوریہ ہند کی جانب سے مکرم جاہ بہادر کو آصف ثامن قبول کرلئے جانے کے بعد اگر وہ ہندستانی سیاست کا حصہ بن جاتے تو شائداس خانوادہ کے حالات کچھ اور ہوتے اور وہ بھی ہندستانی سیاست میں اثرانداز ہوتے لیکن شائد ان کی دوراندیشی نے گاندھی خاندان سے ان کے بے انتہاء قربت سے انہیں اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ ملک کس راہ پر چل پڑاہے اور اگر وہ اس جمہوریت کا حصہ بنتے ہیں تو ان کا وجودخطرہ میں پڑسکتا ہے بلکہ ان کی شناخت بھی ایک ایسے سیاستداں کی ہوسکتی ہے جسے جمہوری نظام میں اپنے جذبۂ خدمت خلق کے بجائے سیاسی چالبازیوں کا حصہ بننا پڑے اسی لئے انہوں نے ایسی جمہوریت کا حصہ بننے جو ترجیح نہیں دی جو کہ بظاہر تو سیکولر تھی۔
ہندستان کی آزادی سے قبل شاہی گھرانے جو مختلف راجہ رجواڑوں اور سلطنتوں میں منقسم تھے ان میں کئی رجواڑوں سے تعلق رکھنے والوں نے ہندستانی جمہوریت کو اپنی پناہ گاہ تسلیم کرتے ہوئے جمہوری غلامی کا طوق پہن کراپنی بقاء کو یقینی بنایا لیکن سلطنت آصفیہ کے آخری فرمارواں نے ان سب کو خرافات تصور کرتے ہوئے اپنی رعایا سے دور رہ کربھی اپنے وجود کو منوالیا اور حکومت وقت کو ان کی آخری رسومات کے لئے سرکاری اعزازات دینے پڑے ۔ مکرم جاہ کے جنازے پر پر چم سلطنت آصفیہ اورجمہوری حکومت کے سرکاری اعزازات ‘ عظمت آصفیہ اور وقار آصفیہ کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہیں۔ہندستانی سیاست کا حصہ بننے والے شاہی گھرانے کے افراد میں کئی سرکردہ گھرانوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات ہیں جنہوں نے جمہوری نظام حکمرانی کو قبول کرتے ہوئے اپنے عوام پر جمہوری تسلط اور مظالم کو برداشت کرتے رہے تاکہ ان کا وقار و مرتبہ برقراررہے لیکن مکرم جاہ نے اپنے رعایا کا جمہوری تسلط کے باوجود اس قدر خیال رکھا کہ وہ جمہوری حکمرانوں سے بھی اپنے عوام کی خبرگیری کیا کرتے تھے لیکن کبھی اس نظام جمہور کا حصہ بننے کے متعلق غور نہیں کیا بلکہ ان کے مشیروں کی تجاویز کے باوجود مکرم جاہ اپنے دادا نواب میر عثمان علی خان کے اصولوں پر کاربند رہے اور کوئی سرکاری عہدہ قبول نہ کرتے ہوئے اس نظام سے اپنی بیزاری کا اظہارکردیا لیکن جو اس نظام کا حصہ رہتے ہوئے شہریان حیدرآباد کی ترقی و فلاح و بہبود میں سرگرم رہے ان سے کبھی تعلق نہ توڑا بلکہ ہمیشہ ہی ان کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔شاہی خانوادوں کے متعلق عام طور پر کئی ایسی باتیں گشت کرتی رہی ہیں جن کا کوئی سراپا نہیں ہوتا لیکن بعض ایسی تلخ حقائق کا بھی آپسی اختلافات کے سبب انکشاف ہوتا رہا ہے جو خاندانی تنازعات کی شکل میں سامنے آئے لیکن اس کے باوجود عوام کی سلاطین آصف جاہی سے جو رقبت و محبت رہی وہ منفرد ہے کیونکہ راج گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں نے سیاست میں قدم رکھنے کے باوجود وہ مقام حاصل نہیں کیا جو مقام اس خاندان کو حاصل ہوا۔ نظام دکن نے اپنے دور اقتدار میں جامعہ عثمانیہ ‘ دواخانہ عثمانیہ ‘ نظام دکن ریلوے یا ٹپہ خانہ ہی نہیں بلکہ اقتدار سے محروم کردیئے جانے کے بعد بھی اپنی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور ان میں نظامس انسٹیٹیو ٹ آف میڈیکل سائنس شامل ہے جو کہ نظام ٹرسٹ کی اراضی پر ہے جو کہ انتہائی قیمتی اراضی ہے لیکن آج بھی حکومت وقت کی جانب سے اس کا معمولی کرایہ اداکیا جاتا ہے۔نیلوفر دواخانہ 1949میں قائم کیا گیا جبکہ نظام دکن کو اقتدار سے محروم کیا جاچکا تھا۔
ریاست دکن حیدرآباد نے 1724 سے 1948 کے دور آصف جاہی میں اپنے 7 آصف جاہوں کو دیکھا اور اس کے بعد آصف سابع کو لسانی بنیادوں کے نام پر سرزمین دکن کو منقسم کرتے ہوئے نئی ریاست آندھراپردیش کے قیام تک ’’راج پرمکھ‘‘ کے طور پر دیکھا لیکن اس کے بعد آصف سابع اور آصف ثامن نے اقتدار سے محرومی کے باوجود اپنی فلاحی‘ تعلیمی و طبی سرگرمیوں سے لاتعلقی اختیار نہیںکی بلکہ ایسے ادارۂ جات کا قیام عمل میں لایا گیا جن سے آج بھی شہریان حیدرآباد فیض یاب ہورہے ہیں۔مکرم جاہ بہادر کی رگوں میں ان کے والد کے سلسلہ ٔ نسب سے آصف جاہوں کا خون دوڑ رہا تھا تو والدہ کے سلسلۂ نسب سے وہ عظیم سلطنت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالمجید ثانی کے نواسے ہوتے ہیں اس اعتبار سے دو انتہائی اہم سلطنتوں کے آخری فرمارواں کے فوری بعد والی نسل ہونے کا اعزاز آصف ثامن شہزادہ والا شان ‘ نواب میر برکت علی خان مکرم جاہ بہادر کو حاصل رہا اور ان کی شخصیت میں جو وضعداری تھی وہ دونوں ہی خانوادوں کی عکاسی کرتی تھی جو طویل عرصہ تک دنیائے اسلام میں علوم و فنون کی خدمت اور اپنے ملک میں رعایا پروری و مذہبی رواداری کے لئے معروف رہے ہیں۔
صبح کے تخت نشین شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا