سیاست فیچر
کیا آپ جانتے ہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے متحدہ ہندوستان کو کس طرح لوٹا، خاص طور پر ہندوستان کی دولت اور وسائل کو کیسے اس نے برطانیہ منتقل کیا، اس بارے میں تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ ہندوستان پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعہ انگریز سامراج نے 200 برسوں تک حکومت کی اور ہندوستانی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی تجارت کے بہانہ ہندوستان میں داخل ہوئی۔ اگر ہم ایسٹ انڈیا کمپنی کے متحدہ ہندوستان میں داخل ہونے کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کمپنی نے سب سے پہلے تجارت کے بہانے سے اور تاج برطانیہ کے نمک خوار انگریز عہدیدار تاجرین کے بھیس میں 1608ء میں ہمارے ملک میں داخل ہوئے اور اس کے عہدہ داروں نے سب سے پہلے گجرات کی بندرگاہ سورت میں اپنے قدم رکھے جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام 1600 میں عمل میں لایا گیا تھا اور پھر 1611 میں کمپنی نے خلیج بنگال کے ساحل آندھرا پر واقع مسولی پٹنم میں اپنی پہلی فیکٹری قائم کی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے بتدریج اپنی موجودگی کا احساس دلانے اپنی سرگرمیوں کو وسعت دی اور 1613ء میں سورت میں اپنی مستقل فیکٹری قائم کردی۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کیپٹن تھامس نے 1612ء میں سورت کے قریب پرتگالیوں کو شکست سے دوچار کیا حالانکہ خود پرتگالی ہندوستان میں اپنی سرگرمیوں کو وسعت دے کر یہاں اپنا دبدبہ و اجارہ داری قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ جس وقت انگریز ایسٹ انڈیا کمپنی کی شکل میں ہندوستان میں داخل ہوئے، اس وقت ملک پر مغل بادشاہ جہانگیر کی حکومت تھی چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے جہانگیر کے دربار سے شاہی فرمان حاصل کرتے ہوئے 1613ء میں سورت میں مستقل فیکٹری قائم کی۔ برطانوی حکومت نے 1615ء میں سرتھامس روکو اپنا سفیر بناکر ہندوستان بھیجا اور وہ جہانگیر کے دربار میں حاضر ہوا۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے تجارتی حقوق مزید مستحکم کرلئے۔ 19 ڈسمبر 2018ء کو الجزیرہ میں Jason Hickel پروفیسر انسٹیٹیوٹ فار انوائرنمنٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی و فیلو رائیل سوسائٹی آف آرٹس کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں انہوں نے مشہور و معروف ماہر اقتصادیات کی ایک نئی تحقیق کا حوالہ دیا اور اس کو کولمبیا یونیورسٹی پریس نے حال ہی میں شائع کیا ہے۔ تحقیق میں انہوں نے ہندوستان میں انگریز سامراج کے 200 سالہ دور اقتدار میں ٹیکس اور ٹریڈ سے متعلق تمام تفصیلات جمع کی ہیں۔ انسا پٹنائک کے مطابق 1765ء اور 1938ء کے دوران ہندوستان سے انگریزوں نے تقریباً 45 کھرب ڈالرس برطانیہ منتقل کئے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج کے تناظر میں دیکھا جائے تو 45 کھرب ڈالرس برطانیہ کے آج کے سالانہ جی ڈی پی سے 17 گنا زیادہ بنتے ہیں۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قدر کثیر رقم انگریزوں نے برطانیہ کیسے منتقلکی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ رقم تجارتی نظام کے ذریعہ منتقل ہوئی۔ ہندوستان پر قبضہ سے قبل کے دور میں انگریز ہندوستانی تاجرین سے عام طریقہ کے تحت قیمت ادا کرکے پارچہ جات اور چاول خریدا کرتے تھے۔ زیادہ تر ان اشیاء کی قیمت چاندی کی شکل میں ادا کی جاتی تھی۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی انگریز اسی قسم کی تجارت کرتے تھے لیکن 1765ء میں اس عمل میں اس وقت تبدیلی آئی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے برصغیر ہند پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا۔ اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستانی تجارت پر اجارہ داری قائم کرلی اور ملک میں محاصل حاصل کرنا شروع کردیا اور بڑی ہشیاری کے ساتھ محاصل سے حاصل ہونے والی آمدنی کو برطانوی استعمال کیلئے ہندوستانی مصنوعات کی خریدی میں استعمال کیا جانے لگا، باالفاظ دیگر ہندوستانی مصنوعات کی قیمت اپنی جیب سے ادا کرنے کی بجائے انگریز تاجرین نے وہ مصنوعات مفت حاصل کی اور کسانوں سے ٹیکس کی شکل میں حاصل کردہ رقم سے کسانوں سے ہی مصنوعات حاصل کی۔ وہ دراصل ایک اسکام تھا اور اسے ہم بڑے پیمانے پر چوری یا سرقہ بھی کہہ سکتے ہیں اور اس چوری کا ہندوستانیوں کو پتہ نہیں چل سکا کیونکہ جو انگریز مصنوعات خریدا کرتے تھے وہ دوسرے انگریز ہوا کرتے تھے۔ محاصل حاصل کرنے والے نہیں۔ دوسری طرف برطانیہ بڑے پیمانے پر فولاد، ٹار اور ٹمبر ، یوروپ سے امپورٹ کرتا رہا۔ یہ ایسی مصنوعات تھیں جو برطانیہ کے صنعتیانہ کے عمل کیلئے بہت ضروری تھے۔ اسی طرح انگریزی سامراج نے ہندوستان سے ایک منصوبہ بند انداز میں سرقہ کیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستانی مصنوعات کو قیمت خرید سے کہیں زیادہ قیمتوں پر دوسرے ممالک کو فروخت کردیا کرتے تھے لیکن جیسے ہی ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہوئی۔ ہندوستانی ایکسپورٹرس کو دوسرے ملکوں کی مصنوعات راست ایکسپورٹ کرنے کی اجازت مل گئی لیکن اس کیلئے ان تاجرین کو کسی نہ کسی طرح برطانیہ پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہندوستانی مصنوعات کی فروخت سے ہونے والی آمدنی انگریز سامراج نے چین کے علاقوں پر قبضہ کرنے اور 1857ء کی بغاوت غدر کو ختم کرنے استعمال کی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندوستان پر انگریزوں کے 200 سالہ قبضہ کے دوران ہندوستانیوں کی فی کس اوسط آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جبکہ 1870ء تا 1920ء ہندوستان میں بھوک و افلاس کا شکار ہوکر لاکھوں ہندوستانی فوت ہوئے۔ فی الوقت آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوستان کو لوٹنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کا مالک ایک ہندوستانی صنعت کار سنجیو مہتا ہے۔ انہوں نے اس کمپنی کو لگژریگڈس (مصنوعات) کا کاروبار کرنے والی کمپنی میں تبدیل کردیا۔ سنجیو مہتا ہندوستانی نژاد برطانوی صنعت کار ہیں۔ کبھی دنیا کی ایک بڑی نوآبادتی طاقت کے طور پر تاریخی کردار ادا کرنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی معیاری چائے (انواع و اقسام کی چائے کی پتی) کافی، چاکلیٹس اور تحفہ تحائف کے پیاکیجس کا کاروبار کرتی ہے۔