ایس آئی آر، جمہوریت پر حملہ

   

Ferty9 Clinic

انپوار اراوند
الیکشن کمیشن آف انڈیا ملک بھر میں ایس آئی آر یعنی فہرست رائے دہندگان پر نظرثانی کروانے کے منصوبے بنارہا ہے جس پر مختلف حلقوں سے تنقید کی جارہی ہے۔ اپوزیشن نے تو اس پر اعتراضات کرتے ہوئے یہاں تک کہا ہے کہ یہ اقدام صرف اور صرف حکمراں بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کے لئے کیا جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے کم از کم 12 ریاستوں میں SIR (اسپیشل انٹینسو رویژن) کا اعلان کیا ہے جبکہ راہول گاندھی اور ممتا بنرجی جیسے اپوزیشن قائدین نے الیکشن کمیشن کے اِس اقدام پر سوالات اُٹھائے ہیں اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن کے اس عمل یعنی SIR پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ فہرست رائے دہندگان میں موجود خامیوں یا فرضی ناموں کو حذف کرنے کا یہ عمل بڑی خاموشی سے ہندوستان کے بنیادی اُصولوں کو ایک طرح سے منسوخ کررہا ہے۔ جمہوریت کی عمارت کی بڑی پیمانہ پر جو انہدامی کارروائی ہوتی ہے وہ اکثر عام دفتری کارروائیوں کے پردہ میں چھپی ہوتی ہے جو بیوروکریسی کی زبان سے لپٹے ہوتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کا اسپیشل انٹینسیو رویژن جو فی الوقت 12 ریاستوں میں کیا جارہا ہے بالکل ایسا ہی اقدام ہے۔ فہرست رائے دہندگان کو صاف و شفاف بنانے کے بہانے کے تحت اصل میں ایک نظریاتی زلزلہ برپا ہے جو یقینا ہندوستانی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے باالفاظ دیگر دہلاکر رکھ دیا ہے یہ صرف رائے دہندوں کے ناموں کو حذف کرنا نہیں بلکہ ’’شہری‘‘ کی تعریف و توضیح کو بڑی خاموشی کے ساتھ ازسرنو تحریر کرنے کا عمل ہے۔
بھروسہ سے شبہ تک
ایک بنیادی وعدہ کی منسوخی : ہمیں یہ سمجھنے کے لئے آخر کیا داؤ پر لگا ہے ہمیں یہ سوال بھی کرنا ہوگا کہ ہندوستان ایک جمہوریہ (جمہوری ملک) کیسے بنا مورخ ORNIT SHANI نے اپنی انگریزی کتاب HOW INDIA BECAME DEMOCRATIC (ہندوستانی جمہوری ملک کیسے بنا) میں اس اہم سوال کا جواب دیا ہے۔ ہندوستان نے 15 اگست 1947ء کو انگریزی سامراج سے آزادی حاصل کی۔ 1947ء سے 1950ء کے درمیان جب ہمارے ملک میں باقاعدہ قانونِ شہریت بھی نہیں تھا اور وہ تقسیم کے گہرے زخموں سے باہر نکل رہا تھا، ہمارے قومی لیڈروں یا معماران قوم نے پہلی فہرست رائے دہندگان تیار کی۔ وہ فہرست صرف ایک دفتری دستاویز نہیں تھی بلکہ ایک انقلابی سیاسی اعلان اور عوام سے کیا گیا ایک بڑا وعدہ تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ وعدہ کیا تھا؟ وہ وعدہ یہ تھا کہ اس سرزمین پر رہنے بسنے والا ہر فرد جب تک اس کے برعکس اور متضاد ثابت نہ ہو اس نئی جمہوریہ میں پورا حق رکھتا ہے۔ اس بارے میں بلا جھجھک یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ریاست کی اپنے عوام پر انتہائی درجہ کے بھروسہ و اعتماد کا عمل تھا۔ ہندوستان کی پہلی فہرست رائے دہندگان کی اصل یا روح فطری شمولیت کا اصول تھی۔ شہریت کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے سرکاری دفاتر کے سامنے طویل قطاروں میں کھڑے ہوکر اور دستاویزات کا پلندہ جمع کرکے حاصل کیا جائے بلکہ شہریت اور حق رائے دہی تمام ہندوستانیوں کا ایک پیدائشی حق تھا۔ ایک سیاسی تشخص و شناخت جو عوام کو ان کی موجودگی کی بنیاد پر دی گئی کاغذات / دستاویزات کی بنیاد پر نہیں لیکن افسوس موجودہ حالات میں الیکشن کمیشن کے نئے SIR نے اس بنیادی منطق کو مکمل طور پر اُلٹ کر رکھ دیتا ہے اور اس کا بنیادی اُصول بھروسہ بلکہ شک و شبہ ہے۔ یہ ہر شہری کو شکوک کی نظروں سے دیکھتا ہے، ان پر شک و شبہ کرتا ہے اور ریاست کو جو جمہوری عمل کی ضامن ہوتی ہے ضامن سے بدل کر ایک بازپرس کرنے والے کی حیثیت عطا کرتا ہے۔ ہر شہری کو یہ کہنے کا حق ہوتا ہے کہ میں اِس قوم اس ملک کا حصہ ہوں لیکن ریاست کے ذریعہ شہری کے مذکورہ حق کو ختم کردیتا ہے اور وہ صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس پر ثبوت و شواہد پیش کرنے کا سارا بوجھ ڈال دیتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے کوئی مجرم مقدمہ کا سامنا کررہا ہو۔
حد سے تجاوز، جب ایمپائر چوکیدار بن جائے
دستور کی دفعہ 324 کے مطابق آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد کروانا الیکشن کمیشن کا ایک مقدس فریضہ ہے اور یہ فیصلہ کرنا کہ کون ہندوستان کا شہری ہے یہ پوری طرح پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں ہے لیکن جب الیکشن کمیشن فہرست رائے دہندگان میں ناموں کی شمولیت (ناموں کے شامل رہنے) کیلئے نئے نئے قواعد کا اطلاق کرکے دستاویزات کا سخت مطالبہ کرتا ہے یا تقاضا کرتا ہے تو دراصل وہ شہریت کی تصدیق کا عمل ایک نئے نام سے انجام دینے لگتا ہے ایسے میں ہم بلا مبالغہ اور بلا جھجک یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں الیکشن کمیشن اپنے حدود اور دائرہ اختیار سے تجاوز کرجاتا ہے۔ گراؤنڈ کے دروازے بند کردیتا ہے اور یہ فیصلہ بھی کرسکتا ہے کہ کون میدان میں کھیل سکتا ہے اور کون میدان کے باہر رہے گا۔ اگر سنجیدگی کے ساتھ دیکھا جائے تو یہ اختیار میں تبدیلی نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے دستور کے بنیادی ڈھانچہ میں اختیارات کی علیحدگی کی کھلی خلاف ورزی ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس انتظامی طاقت بڑی خاموشی سے اپنے دائرہ اختیار سے یا دائرہ کار سے تجاوز کرکے سیاسی میدان میں مداخلت کرسکتی ہے۔
ٹیکنالوجی کا تاریک پہلو اور حاشیہ پر موجود متاثرین
اب یہاں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس شک و شبہ پر مبنی نئے نظام کے پہلے متاثرین کون ہوں گے؟ اس بارے میں غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ فہرست بڑی طویل اور دل دہلادینے والی ہے۔ سب سے پہلے متاثرین میں ایک ریاست سے دوسری ریاست کو حصول معاش کے لئے نقل مکانی کرنے والے کروڑوں مزدور ہیں وہ کروڑ کروڑوں لوگ جو روزگار کے لئے شہر در شہر پھرتے ہیں اور ہمارے ملک کی تعمیر میں اہم حصہ ادا کرتے ہیں اور اکثر ان لوگوں کے پاس مستقل پتہ یا کوئی کرایہ نامہ نہیں ہوتا، دوسرے بے گھر لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک سیدھی سی ڈیٹا کی غلطی ان کی سیاسی بقاء یا سیاسی موجودگی کو حذف کرسکتی ہے۔ دوسری جانب ٹیکنالوجی کے معاملہ میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ شمولیاتی ہوگا لیکن ٹیکنالوجی عوام کو بنیادی حقوق سے محروم کئے جانے کا باعث بن گئی ہے یعنی راحت کے بجائے زحمت میں تبدیل ہوگئی۔ یہاں سوال ڈیٹا کا نہیں بلکہ ہندوستان کا ہے۔ ایک وقت تھا جب فہرست رائے دہندگان ہندوستان میں پہلا جمہوری ڈیٹا بیس ہوا کرتی تھی اور ہر کسی کے نام کی شمولیت کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی بلکہ اب یہ فہرست رائے دہندگان سے ناموں کو نکالنے جانے یا حذف کئے جانے کا ذریعہ بن گئی ہے۔