ناکامی پر مایوس نہ ہوں، والدین پر اب تربیت کی دوگنی ذمہ داری
ڈاکٹر سراج الرحمن
حقیقت میں رب العالمین اخلاص کے ساتھ کی گئی محنت، جستجو کو ضائع نہیں فرماتا۔ قابل تحسین و قابل مبارکباد ہیں وہ طلباء جنھوں نے شاندار نتائج کے ساتھ کامیابی حاصل کی، ان کے سامنے مستقبل کے بڑے راستے اختیار کرنے کے لئے کھلے ہیں۔ ان کو مزید محنت اور لگن کا مظاہرہ کرنا ہے۔ یہ ان کے مستقبل اور خواب کی تکمیل کی انتہائی اہم اور پہلی سیڑھی تو کامیابی سے چڑھی اور آگے اہم ترین مراحل میں بھی جان توڑ محنت کرنا ہے، ان کے لئے ہماری اور ساری اُمت کے بہی خواہوں کی دُعائیں، نیک تمنائیں۔ بقول علامہ اقبالؔ
ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
وہ طلباء کبھی مایوسی کا شکار نہ ہوں جنھوں نے معمولی فرق سے یہ امتحان کامیاب نہ کیا ہو۔ دراصل یہ معمولی ناکامی نہیں بہت سارے سبق سکھاتی ہے۔ یہ چھوٹی سی چوک ہماری مستقبل کی زندگی کے سفر کی بنیاد کو ایک مضبوط عمارت کے پلر کی طرح مضبوط کرتی ہے۔
ہمارے استاد کہا کرتے تھے کہ EVERY DEFEAT IS PILLAR ۔ تاریخ شاہد ہے بڑے بڑے سیاستداں، فلاسفر، رہنما، سیاستداں اپنی کامیابی جن کا وہ تذکرہ اپنی تاریخ میں تحریر کرتے ہیں، انتہائی ناموافق حالات کا تذکرہ کرتے ہیں۔ خود تاریخ اسلام بھی اپنے پھلنے پھولنے سے پہلے کربناک دور کا تذکرہ کرتی ہے۔ جب کہ یہ ناقابل یقین، دردناک دور ختم ہوا اور فتح مکہ (صرف 10 سال کے اندر) کے طور پر اُمت مسلمہ کو نصیب ہوئی۔ بشرطیکہ مسلسل اخلاص والی محنت ہوتی رہے، استقامت کے ساتھ مسلسل کی جانے والی محنت رنگ لاتی ہے۔
اس سال UPSC کے امتحانات میں ہم نے دیکھا کہ ٹاملناڈو کی ایک 3 بچوں کی ماں ساتویں مرتبہ 40 سال کی عمر میں مسلسل ناکامی کے بعد IAS کے لئے منتخب ہوئیں۔
والدین پر بھی نتائج کے بعد ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ جو طلباء کامیاب ہوئے ہیں ان کی خوشیوں میں برابر کے ہم شریک ہیں۔ والدین قابل مبارکباد ضرور ہیں لیکن یہ ماں باپ کے کندھوں پر مزید ذمہ داری کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ لڑکا ہو یا لرکی جن کی اس عمر میں جنسی تبدیلیاں آتی ہیں، Pubertal بدلاؤ ہوتا ہے، نفسیای طور پر چوں کہ ماں باپ کی محنت کا احساس نہیں ہوتا تو اس عمر کے طلباء اپنے آپ کو بھی خود مختار سمجھ بیٹھتے ہیں۔ والدین کی نصیحت اِن کو بُری لگتی ہے۔ گراں گزرتی ہے۔ ان کا اپنا دوستوں کا حلقہ ہوتا ہے۔ یہ ان کی باتوں، مشوروں کو ماں باپ کے مشورہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ اسمارٹ فون جس نے آج نوجوانوں کی زندگی کو برباد بلکہ گمراہ ہی نہیں بلکہ خوشحال زندگی کو جہنم بنادیا ہے کو اپنا سرمایہ، جان سے زیادہ پیارا سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ماں باپ دونوں پر یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ بچوں کی ہر حرکت پر نظر رکھیں۔ رات کے اندھیرے میں بلانکٹ میں اسمارٹ فون چلتا رہتا ہے، ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ اولاد سورہی ہے، یہ غفلت ہے خام خیالی ہے۔ اس حالت پر خاموشی تباہی و بربادی کا الارم ہے۔ سخت نوٹ لیں، جارحانہ قدم اُٹھائیں، لڑکا ہو یا لڑکی یہ کب کہاں جارہے ہیں کبھی خفیہ طور پر کبھی علانیہ چیک کرتے رہیں۔ ہائی اسکولس کی حالت تو بری ہے، ناقابل بیان ہے۔ اگر بچوں کو سدھارنے کی کوشش کی جائے تو وہ اساتذہ کو غیر غلط کہتے، ان کی سواریوں کو نقصان پہنچاتے، فقرے کستے ہوئے ان کی توہین کرتے ہوئے مزے لیتے ہیں۔ جب باپ یا ماں یا رشتہ داروں تک یہ بات پہنچتی ہے تو وہ اسکول، کالج آکر اساتذہ سے بدکلامی اور بھری کلاس میں خاتون اساتذہ کو دھمکی دیتے ہوئے مار دوں گا، کاٹ دوں گا، گاڑی جلادوں گا بلکہ اور بھی زیادہ نازیبا کلمات کہتے ہوئے یہ تاثر دیتے ہیں، ماحول کو پراگندہ کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ نت نئے طریقے سے بچوں کو اساتذہ کا سر درد بناتے ہیں۔ نتیجتاً اساتذہ اپنے اندر چھپے ہوئے علمی جوہر کو جو بچوں کے سینے میں منتقل کرنا چاہتے ہیں حالات کو دیکھتے ہوئے خاموشی اور وقت گذاری میں ہی خیر سمجھتے ہیں، جس کے نتیجہ میں معیار تعلیم خراب ہوجاتا ہے۔
سرکاری کالجس، ہائی اسکولس میں تجربہ کار اساتذہ کی تعلیم ہونے کے باوجود خانگی اداروں پر ہزاروں روپیہ خرچ کرتے ہوئے والدین بچوں کے لئے قرض دار اور مساجد کے سامنے اسکول کا لباس ڈریس پہناکر بھیک مانگتے دیکھے جاتے ہیں۔ اس میں یہ بھیک کی تجارت HELP کا پلے کارڈ تھامے گھنٹوں مسجد کے سامنے ٹھہرتے دیکھنا ایک شرمناک علامت ہے۔ اس میں حقیقی مستحق محروم ہورہے ہیں۔ واللہ اعلم
لہذا یہ ماں باپ پر ان نتائج کے بعد تربیت کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے۔ کہیں یہ ایس ایس سی نتائج میں کامیابی بہتر نگہداشت نہ ہونے کی وجہ سے بے حیائی، بے راہ روی کا دروازہ تو نہیں کھٹکھٹاتے۔ فرمان رسالتمآب ﷺ ہے : والدین اولاد کو جو سب سے بہتر تحفہ دیتے ہیں وہ ان کی بہترین تربیت ہے۔ مبارکباد ہے وہ گنے چنے والدین جو اپنی اولاد کی تربیت کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ اپنے آپ کو اپنے بچوں کی تربیت کیلئے وقف کردیتے ہیں۔ ایسی اولاد والدین کے دنیا سے گزر جانے کے بعد بھی ان کا اجر و ثواب قبر میں پہنچاتی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہماری اولاد کو تربیت کی توفیق عطا فرمائے۔