ایس ایم نعمان یادگار شخصیت ،یادگار کارنامے

   

انشاء ارشد
کے بی این آئی ایم ایس گلبرگہ
ہمارے ملک کی 75 ویں یوم آزادی کی تیاریوں کو دیکھ کر مجھے اپنے دادا جان کا خیال آیا جنہوں نے ایک محب وطن ہندوستانی کی حیثیت سے انگریزوں کی غلامی کے خلاف آواز اُٹھائی تھی چنانچہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اپنے دادا جان ایس ایم نعمان کے بارے میں کچھ لکھوں اور ان کی خدمات، ان کے کردار، ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کروں۔ اُمید کرتی ہوں کہ قارئین، دادا کو پوتی کا خراج عقیدت پسند کریں گے۔ کچھ عرصہ قبل میرے چچا جناب ڈاکٹر طارق جمیل کو انٹرنیٹ پر سرچ کے دوران ایک ڈائری دستیاب ہوئی جس میں کچھ یوں لکھا تھا: ’’ایس ایم نعمان، شمع آزادی کے پروانہ تھے اور اپنے افرادِ خاندان کے ساتھ ایسے رہا کرتے تھے جیسے وہ ایک ریشم کی ڈوری سے بندھے ہوں‘‘۔
اس ڈائری سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا کہ انہوں نے ہندوستان میں کون کیا ہے کے زیرعنوان ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ وہ ایک شعلہ بیان مقرر اور مضبوط قوت ارادی کے مالک تھے اور خاص طور پر ملت اسلامیہ کیلئے انہوں نے بے شمار کارنامے انجام دیئے تھے۔میرے دادا جان ایس ایم نعمان، جمیل احمد کے صاحبزادے تھے۔ جمیل صاحب کا تعلق نگر گوشہ سے تھا جو پٹنہ سے 40 کیلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔ آپ کا پیدائشی مقام صالح پور ہے جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور پٹنہ سے 60 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ جمیل احمد صاحب کا تعلق ایک جاگیردارانہ خاندان سے تھا۔نعمان صاحب نے پٹنہ میں میٹرک پاس کیا اور کلکتہ سے انٹرمیڈیٹ کی فرسٹ کلاس میں تکمیل کی۔اس کے بعد وہ کلکتہ چلے آئے تاکہ بزنس کی دیکھ بھال کر سکیں ۔اسی دوران وہ سینٹ زیویر کالج میں شریک ہو کر کلکتہ یونیورسٹی سے بی اے کی تکمیل کی۔کلکتہ آنے کے بعد نعمان صاحب زمیندار سے بزنس مین بن گئے تھے،بزنس انھیں سیاست میں لے آئی پھر وہ ایک سیاست دان بھی بن گئے۔نعمان صاحب ایک پر اعتماد،دلکش آواز ، مقناطیسی کشش کے حامل اور شائستہ گفتگو کرنے والے انسان تھے۔وہ ایک بے خوف ، نڈر اور حق کیلئے آواز اٹھانے والے نرم دل انسان تھے۔نعمان صاحب کو سوٹ اور شیروانی بہت پسند تھے۔ بزنس میں آنے کے بعد انہوں نے اپنی شخصیت اور قابلیت سے اپنے بزنس کو کافی وسعت دی۔
ان کا تعلق جاگیردار گھرانے سے تھا۔ ان کے جاگیردارانہ خاندان کی روایت تھی کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد نہ تو بزنس کو اپناتا اور نہ ہی سرکاری نوکری کرتا مگر میرے پردادا جمیل احمد صاحب نے اپنی خاندانی روایت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بزنس کیا ،پھر ہڈیوں اور چرم کا بزنس بڑے پیمانے پر ’’جمیل احمد اینڈ سنس ‘‘کے نام سے شروع کیا۔کلکتہ میں بزنس کرتے ہوئے انہیں کافی کامیابی ملی مگر بدقسمتی سے جب وہ صرف 32برس کے تھے اس دنیا سے چل بسے۔ اس وقت میرے دادا صرف 9 برس کے تھے۔کہا جاتا ہے کہ قسمت ہمیشہ باہمت لوگوں پر مہربان ہوتی ہے۔میرے دادا نے بھی ہمت دکھائی اور اپنے والد کے چھوڑے ہوئے بزنس کو پورے نوے برس تک کامیابی کے ساتھ آگے بڑھایا۔نعمان صاحب کی شادی محترمہ فاطمہ خاتون سے ہوئی،بدقسمتی سے وہ جلد ہی اس جہان فانی سے کوچ کرگئی تو نعمان صاحب نے اپنی نسبتی بہن سے شادی کر لی۔نعمان صاحب نے اپنے بزنس کو نہ صرف وسعت دی بلکہ اسے یورپ تک لے گئے اور ہڈیوں اور چرم کی بڑی صنعت اور اسوسیشن کے صدر بنانے گئے۔نعمان صاحب پہلے ہندوستانی تھے جو نہ صرف جوٹ کی صنعت میں داخل ہوئے بلکہ غیر ممالک کو جوٹ سپلائی کرنے والے پہلے ہندوستانی بھی تھے جنھیں جوٹ کے بزنس کی وجہ سے خصوصا ًکلکتہ میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس بزنس کی شروعات 25 ہزار روپے سے ہوئی تھی جس میں سے 18 ہزار صرف اشتہار پر خرچ کئے گئے تھے۔اس کا آفس برٹش مینیجر کے زیر استعمال تھاجس میں دونوں برٹش اور انڈین انتظامیہ تھا۔
نعمان جعفری کا نام برٹش نام کی طرح لگتا تھا جس کی وجہ سے برٹش اور یورپین درآمد کنندگان نے انہیں علیحدہ نہیں کیا اور بزنس ترقی کرتا چلا گیا۔جوٹ کے برٹش برآمد کنندگان بیحد مایوس ہوئے اور انکی ترقی سے جلن کرنے لگے۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنی حسد میں برٹش درآمد کنندگان کو ان کی اصلی شناخت کے بارے میں شکایت کر دی کہ نعمان جعفری ایک انڈین ہیں اور انہیں اتنی اہمیت نہ دی جائے۔کچھ درآمد کنندگان کلکتہ کو نعمان جعفری لمیٹیڈ کے بارے میں پوچھ گچھ کرنے آئے کہ وہ اصلی برٹیشر ہیں یا نہیںاور اس نتیجہ پر پہنچے کہ نعمان جعفری ایک برٹش لمیٹیڈ فرم ہے۔آخر میں ایک تحقیقات چیف جنرل مینیجر آف چارٹرڈ بینک کی طرف سے کلکتہ میں شروع کی گئی۔جس کی رپورٹ میں کچھ اس طرح سے لکھا گیا کہ ”نعمان جعفری اصل میں ایک برطانوی نژاد ہیںجو حیدرآباد میں 100 سال سے رہ رہے ہیں ”۔انہوں نے انگریزوں کو بیوقوف بنایا۔
بدقسمتی سے ایک مرتبہ نعمان صاحب کی غیر موجودگی میں مختلف درآمد کنندگان کی طرف سے جوٹ کی بکنگ ہوئی جس کو مہیا کرنا ممکن نہ تھا۔ان کی ڈائری میں یہ بھی لکھا تھا ’’جب بزنس کے حالات کا مجھے احساس ہوا تو مجھے پتہ چلا کہ فرم ختم ہونے کو آگئی ہے ‘‘۔ان دنوں بینک لون نہیں دیتے تھے تو نعمان صاحب جلدی سے بھوپال کے نواب کے پاس 10 لاکھ قرض کیلئے آئے تاکہ مسئلہ پر قابو پایا جائے لیکن انہیں انکار ملا ۔ان کے انکار پر نعمان صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ’’ڈوبتی ہوئی کشتی کو کون سہارا دے گا ‘‘۔ بعدازاں انہوں نے سارا قرض ادا کیا اور بزنس کو مکمل طرح سے بند کر دیا۔مگر آگے بڑھنے کی ہمت کبھی ختم نہیں ہوئی۔
بزنس کے بعد وہ سیاست کی طرف آئے برٹش گورنمنٹ کی مخالفت کرتے ہوئے تحریک آزادی ہند کے ضمن میں مسلم لیگ سے جڑگئے۔انہوں نے شملہ میں راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں سر سلطان احمد ممبر پرائوی کونسل جوکہ ریڈیو اینڈ براڈکاسٹنگ کے انچارج تھے انکے ساتھ شرکت کی۔گورنر ہاؤز میں ان کا قیام ہوا۔دوسری عالمی جنگ کے وقت دونوں نے مل کر پیراشوٹ اور شوگر کی فراہمی کا بزنس شروع کیا مگر وہ فراہمی نہیں کرپائے اور بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔1934ء میں وہ ایک کم عمر نوجوان کے طور پر پارلیمنٹ میں بہ حیثیت ایم پی داخل ہوئے۔اور 1946-47ء میں ملک کی تقسیم کے بعد متحرک ہو کر جوش وخروش کے ساتھ عوام کے لئے کام کرنے لگے۔تقسیم ہند کے بعد نعمان صاحب کو ایم ایل اے کے طور پر بہار شریف سے چنا گیا۔پانچ سال کے بعد انہوں نے سیاست چھوڑ دی اور اپنے دَم توڑتے بزنس جمیل اینڈ سنس کی دوبارہ دیکھ بھال کیلئے گئے۔بزنس ایک بار پھر ترقی کرتا چلا گیا کیونکہ کوریا میں جنگ جاری تھی۔انہیں ان کے فلاحی اور سماجی کاموں کی وجہ سے 1935ء میں ’’سلور جوبلی ‘‘میڈل سے نوازا گیا۔1946ء میں فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے انہوں نے سارے مسلمانوں کو پٹنہ کے شمس الہدیٰ مدرسہ کے پناہ گزین کیمپ میںرکھنے کا انتظام کیا۔ وہ چیمبر آف کامرس کلکتہ اور اورینٹل چیمبر آف کامرس کلکتہ کے بھی ممبر تھے۔علاوہ ازیں ابتداء ہی سے وہ آل انڈیا ریلوے مسلم اسوسی ایشن کے ممبر بھی رہے تھے۔انہوں نے مسلم مررس کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی تھی،اس کتاب کو انڈین ریلوے کی سرپرستی سے شائع کیا گیا تھا۔
نعمان صاحب کا گھر پٹنہ میں:مصلح پور کا گھر نعمان چیمبر کہلاتا ہے۔گھر کا سنگ بنیاد رکھنے کے بعد وہ یورپ چلے گئے اس لئے یہ ان کے مینیجر کے زیر نگرانی پایہ تکمیل کو پہنچا۔اندر،باہر،دیواروں اور خاص طور پر مہمان خانہ اور برآمدہ میں جو پینٹنگس ہیں ، خصوصی طور پر بنائی گئی تھیںاور یہ ابھی تک محفوظ ہے۔انکے گھر میں کئی منفرد،قدیم چیزوں کا کلیکشن اور پینٹنگس ہیں جسے دیکھ کر وہاں آنے والے حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ آخر کار 22اکتوبر 1953ء کو دل کا دورہ پڑا جس سے وہ جانبر نہ ہو سکے اور اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔