ایمبولینس میں پھولوں کا ہار، ولیمہ کی تقریب کا شرمناک منظر

   

حیدرآباد میں افسوسناک واقعہ ، شادی کی خوشی میں موت کا منظر ، انسانیت کو شرمندہ کیا گیا
موت کا منظر خوشیوں کے لباس میں ، ذمہ داروں کے خلاف پولیس کارروائی ضروری
محمد نعیم وجاہت
شہر حیدرآباد میں ولیمہ کی ایک تقریب کے دوران ایسا منظر دیکھنے میں آیا جس نے سماج اور انسانیت دونوں کو شرمندہ کردیا ۔ شہر کے ایک فنکشن ہال جو پلر نمبر 68 کے قریب ہے ۔ جہاں منعقد ہونے والی ولیمہ کی تقریب میں دولہے کیلئے پھولوں کا ہار ایمبولینس میں سفید کپڑے میں لپیٹ کر میت کی شکل میں لایا گیا ۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ ایمبولنس کا سائرن بھی غیر ضروری بجایا گیا ساتھ ہی بیانڈ باجہ بجایا گیا اور نوجوانوں کو ناچتے ہوئے بھی دیکھاگیا ۔ پھولوں کو نعش کی شکل میں ہاسپٹل عملے کے روپ میں دولہے کے اسٹیج تک پہونچایا گیا ۔ ایمبولنس کا تقدس اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اسے صرف مریضوں کی جان بچانے کیلئے استعمال کیا جانا چاہئے ۔ لیکن اس مقدس سہولت کو شادی کی خوشیوں میں کھیل تماشے کے طور پر استعمال کرنا صرف ایک غیر اخلاقی حرکت ہے ۔ بلکہ سماجی اقدار اور مذہبی تعلیمات کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ ایمبولنس کا سائنر سن کر ہر دل کانپ اٹھتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ کسی کی جان خطرے میں ہے اور وقت کی قیمتی دوڑ جارہی ہے ۔ لیکن اس کو تماشے کیلئے استعمال کیا جائے تو انسانیت کی توہین ہے ۔ اسلام نے شادی کو سادگی کے ساتھ منانے کا حکم دیا ہے ۔ جس کا مقصد خوشی اور محبت کے ساتھ رزق بھی تقسیم ہو ۔ لیکن ایسے مناظر دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے ۔ ہم اپنی خوشیوں میں سنت کو بھلا بیٹھے ہیں اور دنیا کو دکھانے کیلئے ایسے کام کر رہے ہیں جو دین اور سماج دونوں کیلئے باعث شرمندگی ہے ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس طرح کی لغویات کی کھل کر مذمت کریں ۔ ایمبولنس کے سائرن کی آواز زندگی کے امید کی علامت ہے ۔ یہ آواز سن کر ہر دل گھبرا اٹھتا ہے کہ شاہد کوئی بیمار یا زخمی اپنی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ۔ مگر جب اسی سائرن کو ایک شادی کی تقریب میں دولہے کیلئے بجایا جائے تو یہ خوشی نہیں بلکہ انسانیت کے ساتھ مذاق ہے ۔ یہ واقعہ ضرور ہمارے لئے لمحہ فکر ہے ۔ ایمبولنس کا غلط استعمال نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ ان مریضوں کے ساتھ بھی ظلم ہے جنہیں بروقت ایمبولنس نہ ملنے کے باعث اپنی جان گنوانی پڑتی ہے ۔ اس طرح کی حرکات معاشرتی بگاڑ کی علامت ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء ،مشائخین ، سیاستدان ، سماجی تنظیمیں اور سماج میں اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیتیں اس کے خلاف آواز اٹھائے ۔ ایسے واقعات کے خلاف حکومت اور پولیس بھی سخت کارروائی کریں اور ایسے عناصر کو سزا دیں تاکہ کوئی دوسرا اس ناپسندیدہ عمل کو دہرانے کی جرات نہ کریں۔