ایم پی الیکشن : کانگریس اور بی جے پی میں مسلم نمائندگی نہیں کے برابر

   

کانگریس کے 163امیدواروں میں صرف ایک مسلم ‘ بی جے پی کے 136 میں کوئی مسلم امیدوار نہیں

بھوپال : مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات کے لئے ضابطہ اخلاق کا نفاذ ہونے کے بعد سیاسی پارٹیوں کے بیچ شہ مات کا کھیل جاری ہے۔ دو سو تیس رکنی اسمبلی کے لئے بی جے پی نے اپنی تین فہرست جاری کرتے ہوئے جہاں ایک سو چھتیس امیدواروں کے نام کا اعلان پہلے ہی کردیا تھا اور باقی امیدواروں کے نام پر بی جے پی اعلی قیادت کے بیچ غور و خوض جاری ہے۔ وہیں کانگریس نے کافی غور و خوض کے بعد آج اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کرتے ہوئے ایک سو چوالیس امیدواروں کے نام کا اعلان کیا ہے۔ کانگریس کی لسٹ میں عام زمرہ سے سینتالیس، اوبی سی سے انتالیس، ایس سی سے بائیس، ایس ٹی سے تیس، پانچ جین ، انیس خواتین اور ایک مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا ہے۔ بی جے پی کے ذریعہ ابتک ایک سو چھتیس امیدواروں کے نام کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن اس میں کسی بھی مسلم امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا ہے۔ کانگریس اعلی قیادت نے بھوپال وسط سے کانگریس ایم ایل اے عارف مسعود پر ایک بار بھروسہ کرتے ہو اسی سیٹ سے امیدوار بنایا ہے جس بھوپال وسط کی سیٹ سے انہوں نے دوہزار اٹھارہ کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی لیڈر سریندر سنگھ مما کو شکست دی تھی۔بی جے پی نے بھوپال وسط سے دھرونارائن سنگھ کو اپنا امیدوار بنایا ہے۔واضح رہے کہ مدھیہ پردیش کی سیاست میں مسلم قیادت کا زوال نوے کی دہائی کے بعد سے شروع ہوا ہے۔ ورنہ اسی مدھیہ پردیش سے اسی کی دہائی میں سولہ ممبران اسمبلی ہوا کرتے تھے۔کہنے کو بی جے پی اور کانگریس دو الگ الگ پارٹیاں ہیں اور دونوں کے اپنے نظریات ہیں لیکن مسلم قیادت کو نمائندگی دینے کے معاملے میں دونوں کا نظریہ ایک جیسا ہی ہے۔ جس کانگریس پارٹی سے کبھی مدھیہ پردیش میں سولہ مسلم ممبران اسمبلی ہوتے تھے اب اسی مدھیہ پردیش میں کانگریس سولہ کیا چھ ٹکٹ بھی مسلم امیدوار کو دینے کو تیار نہیں ہے۔دوہزار اٹھارہ کے اسمبلی انتخابات میں بھی تین مسلم امیدوار عارف عقیل،عارف مسعود اور مسرت شاہد کو کانگریس نے ٹکٹ دیا تھا جبکہ بی جے پی نے ایک مسلم امیدوار فاطمہ رسول کو بھوپال سے میدان میں اتارا تھا مگر اسمبلی میں صرف عارف عقیل اور عارف مسعود ہی قیادت کے لئے پہنچ سکے۔ بی جے پی امیدوار فاطمہ رسول اور کانگریس امیدوار مسرت شاہد کو شکست کا منھ دیکھنا پڑا۔ لیکن اس بار اسمبلی انتخابات میں ریاست میں جس طرح کی فضا دکھائی دے رہی ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ کانگریس دو مسلم امیدوار سے زیادہ کو میدان میں نہیں اتارے گی اور بی جے پی کی جانب سے مسلم سماج کو مایوسی ہی ہے۔
سینئر کانگریس لیڈر ڈاکٹرعزیز قریشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں تو کانگریس کے ساتھ ہوں لیکن کانگریس اقلیتے طبقے کے ساتھ نہیں ہے۔ اب اقلیتی طبقے کو اپنے حقوق کو لیکر بیدار ہونا ہوگا۔ آج کانگریس نے اپنے امیدواروں کی پہلی فہرست جاری کی ہے۔ آپ خود دیکھئے کہ ایک سو چوالیس امیدواروں میں سینتالیس جنرل کٹیگری، اوبی سی انتالیس، ایس سی بائیس، ایس ٹی تیس ، جین سماج سے پانچ امیدوار، انیس خواتین اور صرف ایک مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ کانگریس قیادت کو اپنے فیصلہ پر غور کرنا ہوگا۔ اگر اقلیتوں کی نمائندگی کو لیکر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا تو انتخابات میں پارٹی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔وہیں اقلیتی طبقے کی قیادت کو لیکر جب بی جے پی ترجمان نریندر سلوجا سے بات کی گئی تو انہوں نے کہا کہ ذات پات اور مذہب کی سیاست کرنا کانگریس کا کام ہے بی جے پی کا نہیں۔ بی جے پی جو بھی پالیسی بناتی ہے وہ سبھی طبقات کو لیکر بناتی ہے۔ بی جے پی نے لاڈلی لکشمی یوجنا بنائی، کنیا دان یوجنا بنائی تو اس کا فائیدہ سبھی کو ملا ہے۔ اگر اقلیتی طبقے سے کوئی امیدوار جیت سکتا ہے تو پارٹی ضرور اس کے نام پر غور کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کانگریس ہم پر بھید بھاؤ کا الزام نہیں لگا سکتی ہے۔ بی جے پی پچھلے پانچ سالوں میں ایم پی سے دو مسلم لیڈر ایم جے اکبر اور نجمہ ہیپت اللہ کو راجیہ سبھا بھیج چکی ہے۔ کانگریس اور کمل ناتھ جی بتائیں انہیں اقلیتی طبقہ کا ہنڈریڈ پرسینٹ ووٹ چاہیئے وہ اقلیتی طبقے کا استحصال کب تک کریں گے۔اب تو اقلیتی طبقے کی آنکھیں کھل جانا چاہئے۔