ایندھن کی قیمت میں پھراضافہ ، عوام کو تکلیف پر حکومت خاموش

,

   

Ferty9 Clinic

7 جون سے 16دنوں میں پٹرول فی لیٹر 8.3 روپئے اور ڈیزل 9.46 روپئے مہنگا ۔ خزانہ بھرنے صرف ایندھن پر انحصار ناقابل قبول:کانگریس

نئی دہلی ۔پٹرول کی قیمت میں پیر کو 33 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کیلئے 58 پیسے کا اضافہ کیا گیا جس کے ساتھ ایندھن کی چلر شرحیں ریکارڈ سطح تک پہنچ گئیں۔ تیل کی کمپنیوں نے لگاتار سولہویں روز قیمتوں میں اضافہ کیا ہے ۔ یہ عوام پر سراسر بوجھ ہے کیونکہ 16 دنوں کی مختصر مدت میں پٹرول فی لیٹر 8.3 روپئے اور ڈیزل 9.46 روپئے فی لیٹر مہنگا ہوگیا ہے ۔ اپریل 2002 ء میں ایندھن کی قیمتوں کے تعین کو حکومت کے کنٹرول سے آزاد کرنے کے بعد سے کسی پندرھواڑہ میں فیول کی شرحوں میں یہ ریکارڈ اضافہ ہے ۔ اپوزیشن کانگریس نے حکومت اور حکومت کے کنٹرول میں کام کرنے والی کمپنیوں کے فائدے کی خاطر عوام پر مسلسل بوجھ بڑھانے کا سخت نوٹ لیتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت کو شاید عوام پر بوجھ ڈالتے ہوئے فائدہ اُٹھانے میں خوشی ملتی ہے ۔ کانگریس لیڈر ایم ویرپا موئیلی نے کہا کہ عالمی وباء کووڈ۔19 کے درمیان عوام پر یہ دوگنا بوجھ ہر طرح سے قابل مذمت ہے ۔ اُنھوں نے ایک بیان میں کہاکہ کورونا وائرس روز بروز پھیلتا جارہا ہے اور معیشت گھٹتی جارہی ہے ۔ اس کے باوجود حکومت ملک کے عوام کو دباتے ہوئے اُنھیں آنسو بہانے پر مجبور کررہی ہے ۔ دہلی میں پٹرول کی قیمت بڑھکر 79.56روپئے فی لیٹر ہوگئی جبکہ ڈیزل آج کے اضافے کے بعد 78.55 روپئے ہوگیا ۔ یہ شرحیں ملک بھر میں ریاست در ریاست بدلتی ہیں جس کا انحصار مقامی سیلز ٹیکس یا ویاٹ پر ہوتا ہے ۔ 7 جون سے قیمتوں میں اضافہ دو ہفتے کی مدت میں اعظم ترین ہوا ہے ۔ تیل کی کمپنیوں نے مئی 2017 ء میں قیمتوں پر روزانہ نظرثانی کا سسٹم اختیار کیا تھا تاکہ عالمی قیمتوں میں تغیر کے اعتبار سے قیمتیں طئے کی جاسکیں۔ 7 جون سے قیمتوں میں اضافہ کے سلسلے سے قبل 82 روز تک قیمتوں پر نظرثانی نہیں ہوئی ۔ تاہم اس وقفہ کے بعد سے لگاتار یکساں نظرثانی ہوتی جارہی ہے یعنی قیمتوں میں صرف اضافہ ہی ہوا ہے۔ موجودہ اُچھال سے قبل ڈیزل کی اعظم ترین قیمت 16 اکٹوبر 2018ء کو دہلی میں اس کی شرح 75.69 روپئے فی لیٹر ریکارڈ ہوئی تھی ۔ پٹرول کی اعظم ترین شرح 4 اکٹوبر 2018ء کو دہلی میں 84 روپئے فی لیٹر تک پہونچ چکی تھی جب شرحوں میں کافی اضافہ ہوگیا تھا تب حکومت نے پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائیز ڈیوٹی میں فی کس 1.5 روپئے فی لیٹر کی کٹوتی کردی تھی ۔ سرکاری ملکیتی تیل کمپنیوں سے کہا گیا تھا کہ مزید ایک روپیہ فی لیٹر خود برداشت کریں تاکہ چلر شرحوں میں 2.5 روپئے فی لیٹر کی کٹوتی ممکن ہوسکے۔ تیل کمپنیوں کے لئے ایک روپئے کی پابجائی جلد ہی ہوگئی اور حکومت نے جولائی 2019 ء میں ایکسائیز ڈیوٹی 2 روپئے فی لیٹر بڑھادی ۔ ممبئی میں پٹرول کی قیمت بڑھکر 86.36 روپئے فی لیٹر ہوگئی اور ڈیزل کے معاملے میں یہی شرح پیر کو 77.24 روپئے فی لیٹر ہوئی ۔ حکومت نے 14 مارچ کو پٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر 3 روپئے ایکسائیز ڈیوٹی بڑھائی تھی اور پھر دوبارہ 5مئی کو پٹرول پر 10 روپئے اور ڈیزل پر 13 روپئے فی لیٹر کا ریکارڈ اضافہ کیا گیا ۔ ان دو اضافوں نے حکومت کیلئے دو لاکھ کروڑ روپئے کی اضافی ٹیکس آمدنی پیدا کی ۔ تیل کمپنیوں انڈین آئیل کارپوریشن (آئی او سی ) ، بھارت پٹرولیم کارپوریشن لمیٹیڈ (بی پی سی ایل ) اور ہندوستان پٹرولیم کارپوریشن لمیٹیڈ ( ایچ پی سی ایل ) نے حکومت کی جانب سے اضافوں پر ایکسائیز ڈیوٹی کا بوجھ اُس وقت صارفین کو منتقل کرنے کے بجائے چلر قیمتوں میں ردوبدل کرلیا تھا جو بین الاقوامی قیمتوں میں دو دہوں میں سب سے زیادہ گراوٹ کی وجہ سے ضروری ہوگیا تھا ۔ تیل کی بین الاقوامی قیمتیں اُس کے بعد سے بتدریج بڑھنے لگیں اور تیل کی کمپنیاں اب اُسی کے مطابق چلر شرحوں میں تبدیلی لاتے جارہے ہیں ۔ تاہم ایندھن کا تعلق مجموعی طورپر پوری معیشت سے ہے ، عام زندگی کا اس پر انحصار ہے ۔ غریب سے لیکر امیر تک سب ایندھن سے جڑے ہیں ۔ اس لئے اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ایندھن کے معاملے میں بین الاقوامی سطح پر ہو یا ملکی اعتبار سے کوئی ضرورت آن پڑے تو فوری ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ سے مالیہ جٹانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے ۔ اس سے عام آدمی کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ سابق وزیر پٹرولیم موئیلی نے کہا کہ مودی حکومت نے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے ساتھ ساتھ اس عمل سے محظوظ ہونے کا عملی مظاہرہ کیا ہے ۔ حکومت کو تیل کمپنیوں کے اقدامات پر خاموش تماشائی نہیں رہنا چاہئے بلکہ ضروری مداخلت کے ذریعہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں توازن برقرار رکھنا چاہئے ۔