اینٹی سی اے اے ایجی ٹیشن اب روکنے میں دانشمندی

   

مرکنڈے کاٹجو
شہریت (ترمیمی) قانون یا سی اے اے کی مخالفت میں شاہین باغ دہلی اور ہندوستان کے دیگر مقامات کے احتجاجیوں کیلئے میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جاریہ ایجی ٹیشن فی الحال ترک کردیں۔ میں خود سی اے اے کا مخالف ہوں۔ اس کے باوجود اینٹی سی اے اے ایجی ٹیشن کو ختم کرنے کا وقت آچکا ہے۔ ان حقائق پر غور کیجئے:
۔ بی جے پی حکومت اس قانون سے کبھی دستبردار نہیں ہوگی۔ اُن کے قائدین نے بار بار یہ اعلان کیا ہے۔ یہ ایجی ٹیشن اب تشدد کا موجب بن رہا ہے۔ موافق حکومت گروپوں اور مخالف سی اے اے احتجاجیوں کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں شمال مشرقی اور جنوبی دہلی کے کئی مقامات جیسے جعفرآباد، موج پور، چاند باغ، وغیرہ میں پیش آئی ہیں۔ اس طرح کے پُرتشدد واقعات مستقبل میں بڑھیں گے، اور اس سے ہندو۔ مسلم دشمنی مزید بڑھے گی۔ جہاں مسلمانوں کی عمومی طور پر اس ایجی ٹیشن کو حمایت حاصل ہے، وہیں ہندوؤں میں احساس بڑھنے لگا ہے کہ یہ ایجی ٹیشن مضرت رساں بن چکا ہے، جو اُن کی روزمرہ کی زندگیوں میں مسائل اور خلل کا سبب بن رہا ہے۔
۔ فرقہ پرستی میں اضافے سے کسے فائدہ ہوتا ہے؟ انھیں جو سیاسی طور پر اسی پر پھلتے پھولتے ہیں۔ لہٰذا، یہ ایجی ٹیشن اب واقعی اُن کو فائدہ پہنچا رہا ہے، اور اینٹی سی اے اے احتجاجی لوگ نادانستہ طور پر اُن کی مدد کررہے ہیں۔
جنگ میں ہمیشہ پیش قدمی جاری نہیں رکھ سکتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ قدم پیچھے لینا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر لارڈ کرشنا کو جب جراسندھ کی برتر فوجوں کا سامنا ہوا تو وہ متھرا سے دستبردار ہو کر دوارکا چلے گئے۔ اس اقدام پر اُن کو ’’رَن چھوڑ‘‘ (یعنی وہ جو لڑائی چھوڑ جائے) کہا گیا، لیکن ’رَنچھوڑ‘ رُسواکن نہیں بلکہ قابل توقیر خطاب ہے۔ جب نپولین نے 1812ء میں روس پر چڑھائی کی، روسی آرمی کمانڈر کوتوزوف نے برتر فرانسیسی فورسیس کے ساتھ راست مقابلے کے بجائے دستبرداری اختیار کرلی، اور حتیٰ کہ ماسکو تک چھوڑ دیا تھا۔ ایسی حکمت عملی کے ذریعے اُس نے نپولین کو شکست دی۔ امریکی جنگ ِ آزادی (1775-81ء) کے دوران جنرل جارج واشنگٹن نے برتر برطانوی فوجوں کا سامنا ہونے پر کئی بار اپنے قدم پیچھے ہٹائے، اور ایسا ہی چینیوں نے اپنے ’لانگ مارچ‘ کے دوران اور ویتنام میں ویتکانگ نے کیا تھا۔ اس طرح کی مزید کئی تاریخی مثالوں کی یاددہانی کرائی جاسکتی ہے جس سے ظاہر ہوجائے کہ ’’جو لڑتا اور (پھر) وہاں سے دور چلا جاتا ہے، کسی اور دن لڑائی کیلئے تیار رہتا ہے‘‘۔
اب وقت ہے کہ مخالف سی اے اے احتجاجی لوگ سوجھ بوجھ و دانشمندی سے کام لیں۔ وہ اپنی بات اچھی طرح پیش کرچکے ہیں، اور اب اُن کے قائدین کو اردو شاعر آتش کے الفاظ میں اپنے حامیوں سے کہنا چاہئے، ’’بس ہو چکی نماز، مصلیٰ اُٹھائیے‘‘۔ یوں تو میں نے یہ تجویز دنیوی حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پیش کی ہے، لیکن فطری بات ہے کہ کئی گوشے سوالات اور کریں اور اندیشے پیدا ہوں گے۔ میں نے بعض شکوک و شبہات اور سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی ہے:
کیا ایجی ٹیشن کو ختم کرنا مودی حکومت اور بی جے پی کمزوری کی علامت نہیں سمجھیں گے اور پھر وہ ہر قسم کے احتجاج کے خلاف اپنی جارحانہ روش میں شدت پیدا کرسکتے ہیں؟
احتجاجیوں کو اعلان کردینا چاہئے کہ وہ اپنا ایجی ٹیشن ختم کررہے ہیں، مگر اس لئے نہیں کہ اپنے کاز کی صداقت یا اپنی طاقت اور اس کے حصول میں اپنے پختہ احساس کے تعلق سے کوئی شبہات ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ تشدد کو ٹالنا چاہتے ہیں، جو ایجی ٹیشن یونہی جاری رہنے کی صورت میں عین ممکن ہے، اور صرف ملک کی فرقہ پرست قوتوں کو فائدہ پہنچائے گا۔ انھیں ضرور سینٹ پیٹرسبرگ، روس میں جنوری 1905ء کے اُس ’’خونریز اتوار‘ کے واقعات کو یاد رکھنا چاہئے اور اس کے اعادہ کو روکنے کی ضرور کوشش کرنا چاہئے۔ شاہین باغ نے ملک بھر میں احتجاجوں کو حوصلہ بخشا ہے اور بیرونی میڈیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ اس تنقیدی کوریج نے مودی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا ہے۔ اگر احتجاج ختم ہوجائے تو انٹرنیشنل میڈیا کو ہوسکتا ہے اینٹی سی اے اے موومنٹ میں دلچسپی نہ ہوگی۔ میری رائے میں بیرونی میڈیا کا مودی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا، (کیونکہ) وہ اس طرح کے دباؤ سے سراسر بے پرواہ ہے۔اگر سپریم کورٹ سی اے اے کی مخالفت میں داخل کردہ عرضیوں کو کم از کم سماعت پر ڈالنے اور شنوائی کرنے میں سرگرمی دکھاتا تو احتجاج کو ختم کرنا کارگر ہوسکتا ہے۔ لیکن فاضل عدالت کو ایسا لگتا ہے کہ اس ٹھوس مسئلہ سے نمٹنے میں دلچسپی نہیں ہے۔ یہ کس حد تک واجبی ہے؟ سپریم کورٹ کے حالیہ ٹریک ریکارڈ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے تعلق سے کم بات کرنا ہی بہتر ہے۔
شاہین باغ دہلی کی مثبت خصوصیات میں سے مسلمہ سیاسی پارٹیوں کی غیرموجودگی ہے۔ اس طرح عوام نے خود اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاہین باغ احتجاج کو ختم کرنے پر جوکھم ہے کہ یہ سیاسی پارٹیاں دوبارہ اُبھر کر اس موومنٹ کو ہتھیانے کی کوشش کریں گے۔ بی جے پی کے ماسواء مسلمہ سیاسی پارٹیاں کمزور اور غیراہم ہوگئی ہیں۔ اس لئے اُن کی طرف سے یہ تحریک کو اُڑا لینے کا امکان بہت کم ہے۔
[email protected]