بہت شور سنتے تھے ہاتھی کی دم کا، لیجئے ۳۱ اگست کو آسام میں این آر سی کی حتمی فہرست آگئی، …… وہ سارے لوگ ہکا بکا ہیں جو برسوں سے چیخ رہے تھے کہ آسام میں کڑوڑوں گھس پیٹھئے ( مسلمان پڑھا جائے) ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں ان گھس پیٹھیوں کی شناخت کی جائے اور ان کو نکال باہر کیا جائے، ………..اس چیخ پکار میں صرف بھاجپا کے لوگ نہیں تھے بلکہ کانگریس سمیت دوسری پارٹیوں کے لوگ بھی شامل تھے، نتیجہ کیا ہوا؟
آسام میں سوا تین کروڑ کی آبادی ہے ۲۰۱۳ سے اب تک سات برسوں میں سولہ سو کڑوڑ روپئے خرچ کرنے بعد جب گزشتہ سال این آرسی کی پہلی فہرست آئی تھی اُس میں تقریبا چالیس لاکھ افراد کے نام شامل نہیں تھے، فہرست میں بے شمار غلطیاں تھیں، جونام شامل تھے اُن میں اسپیلنگ کی غلطیاں تو تھی ہی، بہت سے ایسے تھے جن کانام تو شامل تھا ان کے لڑکوں کا نہیں تھا، کسی لڑکے کا تھا تو اُس کے والدین میں دونوں یا کسی ایک کا نام شامل نہیں تھا، ایسا بھی تھا کہ ماں کی جگہ بیوی کا نام، بیوی کی جگہ بہن کا نام درج کیا گیا تھا ـ سابقہ فہرست جاری ہونے کے بعد بہت ہنگامہ ہوا، اُس کے بعد دوبارہ مہلت دی گئی تاکہ جن کا نام شامل ہونے سے رہ گیا ہے وہ اپنے دستاویز دکھا کر اپنا نام شامل کرائیں جن کا نام غلط درج ہوگیا ہے وہ تصحیح کرالیں، لوگ بڑی مشکلوں اور سینکڑوں روپے خرچ کرکے دور دراز واقع این آر سی سینٹر پہونچے، سپریم کورٹ کی جانب سے حتمی فہرست جاری کرنے کی تاریخ ۳۱ اگست ۲۰۱۹ دی گئی تھی ـ
بہر حال فہرست جاری ہوگئی مگر وہی ڈھاک کے تین پات، اس بار بھی وہی ساری غلطیاں موجود ہیں، مذکر کو مونث بنادیا گیا ہے، ایک خاندان میں اگر چار کے نام موجود ہیں تو تین کے نہیں ہیں، جبکہ سارے خاندان نے ایک جیسے دستاویز پیش کئے تھے ـ …….. اس بار ایک نئے انداز کی غلطی بھی سامنے آرہی ہے، کچھ ایسے لوگ ہیں جن کا نام پچھلی فہرست میں تھا اس بار غائب ہے ـ
ہاں اِس بار ایسے لوگوں کی تعداد جن کا نام فہرست میں شامل نہیں تھا چالیس لاکھ سے گھٹ کر اُنیس لاکھ رہ گئی ہے، ………. *دوسری مزے کی بات یہ ہے کہ ان ۱۹ لاکھ میں اکثریت یعنی بارہ لاکھ ہندو ہیں صرف سات لاکھ مسلمان ہیں، اُن میں بھی بیشتر ایسے ہیں جن سے فارم وغیرہ بھرنے میں غلطیاں ہوگئی تھیں، خاندان کے متعدد افراد میں ناموں کی اسپیلنگ کا فرق تھا، ابھی چار ماہ کا وقت پھر دیا گیا ہے کہ ایسے لوگ اپنے ناموں کی تصحیح کرالیں، ……. کہاں توحلق پھاڑ پھاڑ کروڑوں مسلمان گھس پیٹھیوں کی بات کی جارہی تھی کہاں صرف سات لاکھ مسلمان، ان میں سے پیشتر انشااللہ فہرست میں شامل ہوجائیں گے ـ*
اس طرح کی فہرست دیکھ کر فرقہ پرستوں کا رنگ اُڑ گیا ہے ـ شاید حکومت کو اس کا اندازہ پہلے ہی سے تھا اسی لئے وزیر اعلی نے فہرست جاری ہونے سے ایک دن قبل کہہ دیا تھا کہ جن لوگوں کا نام فہرست میں نہ آئے انھیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ایسے لوگوں کے لئے راستہ نکالا جائے گا،…….. آسام کے ایک منتری تواتنے بوکھلا گئے کہ انھوں نے بیان دے دیا کہ یہ این آرسی بکواس ہے، ہندوؤں کے خلاف سازش کی گئی ہے ـ ……. اب سوال یہ ہے کہ اگر سازش کی گئی ہے تو کس نے کی ہے، مرکز میں بھی آپ کی حکومت ہے اور ریاست میں بھی !
اگر خدانخواستہ فہرست میں شمولیت سے رہ جانے والے بارہ لاکھ ہندوؤں کے بجائے مسلمان ہوتے اور صرف سات لاکھ ہندو ہوتے تو اب تک پورے ملک میں جشن ہوچکا ہوتا مٹھائیاں بٹ رہی ہوتیں ـ
اس موقعہ پر ذرا سوچئے آسام کی صرف تین کڑوڑ آبادی کو شمار کرنے میں سات سال اور سولہ سو کڑوڑ روپئے خرچ ہوگئے ( یعنی ایک آدمی پر تقریبا ساڑھے پانچ سو روپئے) پھر بھی صحیح فہرست نہیں آسکی، اگر یہی این آرسی پورے ملک کی ایک سو تیس کڑوڑ کی آبادی پر نافذ کیا جاتا تو کتنا عرصہ لگتا؟ تقریبا سترہ لاکھ کڑوڑ سے زیادہ صرف جاتے، ……. ہمارے ملک کی موجودہ اقتصادی صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے روز مرہ اخراجات کے لئے رزرو بنک پر دباؤ ڈال کر ایک لاکھ ستر ہزاز کڑوڑ حاصل کرنے پڑے ہیں ایسے میں ہمارا ملک سترہ لاکھ کڑوڑ خرچ کرنے کا متحمل ہوسکتا تھا ؟
آگے سوال یہ ہے کہ اب کیا ہوگا ؟ چار ماہ کی مدت تو اُن لوگوں کو دی گئی ہے جو رہ گئے ہیں، چار ماہ بعد اُن لوگوں کے پیش کردہ کاغذات کی جانچ ہوگی، جانچ میں کتنا وقت لگتا ہے پتہ نہیں، اندازہ یہ ہے کہ سال ڈیڑھ سال بعد رپورٹ آئیگی، پھر جو رہ جائیں گے اُنھیں ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا حق ہوگا، ہائی کورٹ سے فیصلہ آنے میں کم ازکم ڈیڑھ دوسال کا وقت لگ سکتا ہے، پھر ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ!
اندازہ ہے کہ اس پورے پروسس میں پانج سے چھ سال کا وقت لگ سکتا ہے، پانچ چھ سال میں کون سی حکومت آتی ہے کون سی جاتی ہے کچھ پتہ نہیں نیز اُس وقت ملک کی کیاصورت حال ہوگی کون کون سے نئے مدعے سامنے آئیں گے یہ آنے والا وقت بتائے گا ……… فی الحال ہمیں لگتا ہے کہ این آرسی کا کھیل ختم ہوچکا ہے ـ
ان سب کے باوجود ہم ایک ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے حکومت سے یہ سوال کرنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ آسام میں سولہ سو کڑوڑ روپئے کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟