این آر سی اور این پی آر کے بارے میںچیف منسٹر کا موقف واضح

   

مسلمانوں کو تشویش کی ضرورت نہیں، مسلم قائدین کے وفد کو وزیر پنچایت راج دیاکر راؤ کا تیقن

حیدرآباد۔/29 فبروری، ( سیاست نیوز) وزیر پنچایت راج ای دیاکر راؤ نے ورنگل کے مسلم نمائندوں پر مشتمل نمائندہ وفد کو یقین دلایا کہ ریاست میں این آر سی اور این پی آر کے بارے میں مسلمانوں کے جذبات سے وہ چیف منسٹر کو آگاہ کریں گے۔ ملت رابطہ کمیٹی ورنگل کے قائدین نے وزیر پنچایت راج سے ملاقات کرتے ہوئے این آر سی اور این پی آر کے خلاف اسمبلی میں قرارداد کی منظوری کی اپیل کے ساتھ یادداشت پیش کی۔ اس موقع پر مسلم قائدین نے این پی آر اور این آر سی کے بارے میں مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی سے آگاہ کرایا اور کہا کہ چندر شیکھر راؤ حکومت کو چاہیئے کہ وہ اسمبلی میں دونوں کے خلاف قرارداد منظور کرے۔ تلنگانہ کھادی اینڈ ولیج بورڈ کے صدرنشین مولانا محمد یوسف زاہد، مولانا خسرو پاشاہ کے علاوہ دیگر مسلم تنظیموں کے نمائندوں نے ریاستی وزیر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ارکان اسمبلی سی دھرما ریڈی، سدرشن ریڈی اور ٹی راجیا موجود تھے۔ مسلم وفد سے خطاب کرتے ہوئے دیاکر راؤ نے کہا کہ چیف منسٹر کے سی آر نے تلنگانہ میں گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کو ہمیشہ اولین ترجیح دی ہے۔ مختلف مذاہب اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے عوام تلنگانہ میں باہم شیر و شکر اور ایک خاندان کی طرح زندگی بسر کررہے ہیں۔ کوئی بھی ہم میں تفریق اور پھوٹ پیدا نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے این آر سی اور این پی آر کے بارے میں موقف واضح کردیا ہے۔ تلنگانہ میں مسلمانوں کیلئے کوئی مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ ٹی آر ایس حکومت تمام طبقات کی بھلائی کیلئے اقدامات کررہی ہے اور وہ تمام طبقات کے ساتھ ہے۔ دیاکر راؤ نے کہا کہ اسمبلی میں مسلمانوں کے مطالبہ کے حق میں قرارداد کی منظوری کیلئے چیف منسٹر سے نمائندگی کریں گے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ کسی بھی جانب سے اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا چاہیئے۔ ہر ایک کو مذہبی رواداری اور اتحاد کی برقراری کیلئے مساعی کرنی ہوگی۔ ریاستی وزیر نے کہا کہ تلنگانہ میں امن و امان اور بھائی چارگی کا تحفظ ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ مسلم قائدین کے وفد نے وزیر پنچایت راج سے کہا کہ چیف منسٹر نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قرارداد کی منظوری کا اعلان کیا ہے انہیں این پی آر اور این آر سی کے خلاف بھی قرارداد منظور کرنی چاہیئے۔ مرکزی حکومت کے سیاہ قوانین کے نتیجہ میں مسلمانوں میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پایا جاتا ہے۔