این پی آر چھوڑیئے کورونا کیخلاف مستعدی ناگزیر

   

پی چدمبرم

ڈاکٹر نینسی میزنیئر، ڈائریکٹر، سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن، امریکا نے کوروناوائرس کے پھیلاؤ کے تعلق سے 26 فبروری 2020ء کو متنبہ کیا اور کہا تھا: ’’بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ آیا اس کا مزید پھیلاؤ ہوگا، بلکہ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ ٹھیک ٹھیک اندازہ لگائیں تو کب یہ وبائی مرض کا سامنا ہوگا اور اِس ملک میں کتنے لوگ شدید علالت سے دوچار ہوجائیں گے۔‘‘ چین میں یہ وائرس کی وبا پھوٹ پڑے 10 ہفتے ہوچکے ہیں۔ چین سخت کنٹرول اور نگرانی والا سماج ہے۔ اس کی حکومت اگر چاہے تو اپنے مکینوں کو آہنی گرفت میں رکھ سکتی ہے۔ چین کے ابتدائی ردعمل میں سستی معلوم ہوئی لیکن جیسے ہی اس نے صورتحال کی سنگینی کو تاڑ لیا، چین نے تمام محاذوں پر تیزی سے عمل شروع کیا… شہروں کو عملاً بند کردیا، داخلی نقل و حرکت پر امتناع عائد کیا، کوروناوائرس مریضوں کیلئے بستروں کا انتظام کیا، دو نئے اسپتال تعمیر کئے، اور ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈکس اور مختلف آلات کو تیزی سے حرکت میں لے آئے۔ ’پابند ڈسپلن‘ شہری زندگی والے ممالک جیسے روس اور جاپان نے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر کے مقابل بہتر کام کیا ہے۔ اٹلی اور ایران نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
کورونا سے نمٹنے تیاری کی حالت
ہندوستان کو تشویش لاحق ہے۔ جیسا کہ وزیراعظم نے چند روز قبل کہا تھا کہ ہمیں پریشان نہیں بلکہ لازماً تیار رہنا چاہئے۔ بہت صحیح بات ہے، لیکن ہمارا ملک کس حد تک تیار ہے؟ زیادہ موزوں یہ سوال ہوگا کہ ملک کی ہر ریاست کس حد تک تیار ہے؟ چند کے ماسوا، تمام ریاستوں میں انٹرنیشنل ایئرپورٹس ہیں، اور فلائٹس روزانہ آتی ہیں۔ اندرون ملک سفر میں ہر روز سینکڑوں ہزاروں افراد شامل رہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ گنجان آبادی والے علاقوں میں رہتے ہیں، گھروں کی حالت تنگ ہوتی ہے، جگہ جگہ کچرے کے انبار پڑے ہوتے ہیں، اور قصبات اور شہروں کی حالت حفظانِ صحت کے منافی ہے۔ اس حقیقت ِ حال کو دیکھتے ہوئے کہئے کہ ہمارا ملک کس حد تک تیار ہے؟
وزیراعظم نے کوروناوائرس کے مسئلہ پر اپنا پہلا جائزہ اجلاس 3 مارچ کو منعقد کیا۔ وزیر صحت نے ایک بیان 5 مارچ کو دیا۔ ابھی تک ریاستی وزرائے اعلیٰ یا وزراء صحت کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائرالوجی، پونے اور 15 لیباریٹریز طبی نمونوں کی جانچ کیلئے آلات سے لیس بتائے جاتے ہیں؛ ہمیں مزید کئی لیابس کی ہنگامی ضرورت ہے۔ دیگر ملکوں سے یہی سبق ملا ہے کہ جیسے ہی کسی فرد میں اس وائرس کا پتہ چلتا ہے، متاثرین کی تعداد آناً فاناً بڑھ جاتی ہے۔ انڈیا میں یہ تعداد محض تین دنوں میں 1 سے 2 ، دو سے 6 ، چھ سے 30 تک پہنچ گئی۔ بے شک اس مرحلے پر حیران و پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں، لیکن فکرمندی اور کچھ ناامیدی بھی فطری بات ہے۔ بڑے پیمانے پر ترسیل و رابطہ کا پروگرام کئی ہفتے قبل شروع کیا جانا چاہئے تھا۔ اس کے برخلاف حکومت سی اے اے، این پی آر اور صدر ٹرمپ کا استقبال کرنے میں مصروف رہی ہے۔ حتیٰ کہ اب بھی اس کی ترجیحات مختلف نظر آتی ہیں۔
حقیقت ِ حال کا تجزیہ
دریں اثناء ’کمیونل وائرس‘ کا کورونا وائرس کے خلاف لڑائی پر اثر پڑے گا۔ ہم بھلے ہی اعتراف نہ کریں، لیکن حقیقت ہے کہ اقلیتیں حاشیہ پر جی رہے ہیں۔ کس طرح ہیلت ورکرز کی اُن تک رسائی ہوگی تاوقتیکہ برادریوں کے درمیان اچھے تعلقات نہ ہوں؟ پولیس فورس کو کس طرح متعین کیا جاسکتا ہے کہ متاثرہ افراد کو الگ تھلگ کرتے ہوئے انھیں دواخانوں کو منتقل کریں۔ مہلک وبائی مرض کے خلاف ملک گیر جدوجہد میں پہلا اہم کام سماجی ہم آہنگی اور امن برقرار رکھنا ہے۔ حالیہ تلخی کو پس پشت ڈال کر اس مرض سے لڑنے میں تمام برادریوں کو شامل کرنے کیلئے حکومت کیا کررہی ہے؟ مفید کام بہت کم ہوا؛ خوف و ہراس میں رہنے اور اپنے گھروں کو چھوڑ کر جانے والوں کو دلاسہ دینے کی تک کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں، جب بعض ممالک ہماری خامیوں کی نشاندہی کررہے ہیں تو کیوں شدید ردعمل ظاہر کیا جائے؟ کیا ہندوستان نے سامراجیت (دہا 1950ء) یا نسلی امتیاز (نسل پرستی) یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں (روہنگیا نقل مکانی) یا نسل کشی (کئی افریقی ممالک) پر تنقید و تبصرہ نہیں کیا ہے؟ ہمیں تنقید کو مثبت انداز میں دیکھنا چاہئے۔ پہلے سے کہیں زیادہ ہم کو دوستوں اور تجارتی شراکت داروں کی ضرورت ہے۔ ہماری معیشت تیزی سے گررہی ہے… محض سات سہ ماہی مدتوں میں شرح 8 فی صد سے 4.7 فی صد ہوگئی ہے۔ 2020ء میں عالمی معاشی ترقی کا تخمینہ نظرثانی کے بعد 2.9 فی صد سے 2.4 فی صد کیا گیا ہے اور اگر کوروناوائرس پیداوار اور سربراہی میں مزید خلل ڈالے تو اور بھی گراوٹ آسکتی ہے۔
بعض تجاویز
چند اقدامات ہیں جو حکومت کرسکتی ہے، حالانکہ بعض کام بی جے پی اور آر ایس ایس کو گراں گزر سکتے ہیں۔
1۔ وزیراعظم کو فوری قوم سے خطاب کرنا چاہئے، اور پھر ہر ہفتے۔ وہ عوام سے اپیل کریں کہ اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے ممکنہ قومی بحران سے نمٹنے میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ تعاون کریں۔
2۔ اعلان کیجئے کہ نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کا عمل غیرمعینہ مدت تک ملتوی کیا جائے گا۔
3۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے نفاذ کو معطل کیا جائے، اور اس کے ساتھ سپریم کورٹ سے درخواست کریں کہ مرممہ قانون کے جواز کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر سماعت کو ملتوی کردیں۔
4۔ آزاد کمیشن آف انکوائری مقرر کیا جائے جو حالیہ دہلی فسادات کے آغاز، اس کے دورانیہ اور نتائج کی تحقیقات کرے۔
5۔ COVID-19 سے نمٹنے کیلئے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے نمائندوں پر مشتمل نیشنل ایمرجنسی کمیٹی تشکیل دی جائے۔
6۔ دھوم دھام یا فضول خرچ والے پراجکٹس پر مصارف روک دیئے جائیں اور یہ فنڈز کوروناوائرس کے سلسلہ میں ٹسٹ اور متاثرین کے علاج کیلئے سہولیات کو وسعت دینے کیلئے الاٹ کئے جائیں۔ اس مساعی میں فیاضی سے گرانٹس منظور کرتے ہوئے پرائیویٹ ہاسپٹلس سے بھی استفادہ حاصل کیا جائے۔
7۔ چونکہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ضعیف و معمر افراد کوروناوائرس کے معاملے میں زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں، اس لئے سرکاری اور خانگی دواخانوں کی مدد کیجئے کہ وہ اپنے پاس بوڑھوں کے وارڈز میں علحدہ سہولتوں کا انتظام کرسکیں۔
8۔ فارماسیوٹیکل انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ماسک، گلوز، انسدادی کپڑے، جراثیم کش مادوں، اور ڈبلیو ایچ او قواعد کے مطابق کارآمد ڈرگس کی تیاری کی اپنی صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کریں۔
9۔ ہندوستان سے تمام متاثر ملکوں کو تمام غیراہم سفر معطل کئے جائیں اور اُن ممالک کے افراد کیلئے ویزے روک دیں۔ تمام انٹرنیشنل کانفرنسوں سے دستبرداری اختیار کی جائے۔
10۔ سفر کی تحدید کے باعث متاثر ہونے والے شعبوں جیسے ٹورازم، ایئرلائنس، ہوٹل اینڈ ہاسپٹالیٹی، امپورٹس اور اکسپورٹس، وغیرہ کیلئے ٹیکس راحت اور ترغیبات فراہم کئے جائیں۔
جہاں تک آپ کا تعلق ہے،اپنے ہاتھ صاف رکھیں اوراوپر والے سے اچھی اُمید رکھیں!