ایودھیا تنازعہ : ہندو فریق پوری 2.77اراضی پر قبضہ کی خواہاں

,

   

نئی دہلی ۔ /6 اگست (سیاست ڈاٹ کام) ایودھیا میں رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد تنازعہ پر مباحث میں مسلمانوں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ تاہم نرموہی اکھاڑہ جو مقدمہ کا ایک فریق ہے کہہ رہا ہے کہ متنازعہ عمارت کی اراضی کا مکمل قبضہ اسے دیا جائے کیونکہ ثالثی کی کوششیں تنازعہ کے خوشگوار حل تلاش کرنے سے قاصر رہی ہے ۔ 5 ججس پر مشتمل سپریم کورٹ کی بنچ کے اجلاس پر جس کی صدارت چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کررہے تھے ۔ جس میں جسٹس ایس اے بوبڑے ، ڈی وائی چندرا چور ، اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر شامل ہیں کہا کہ اسے متنازعہ عمارت کی اراضی کا مکمل قبضہ دیدیا جائے کیونکہ ثالثی ناکام ہوچکی ہے ۔ آر ایس ایس کے نظریہ ساز کے این گویند اچاریہ نے ایودھیا مقدمہ کی کارروائی میں اپنے بیان کے اندراج کی خواہش ظاہر کی ۔ اکھاڑے کے وکیل نے سپریم کورٹ سے کہا کہ یہ مقدمہ صرف اراضی کی ملکیت کے فیصلہ کی حد تک محدود ہے اور اس پر قبضہ اور انتظامی حقوق کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نرموہی اکھاڑہ ایک مسلمہ تنظیم ہے اور اس کا مقدمہ ملکیت ، قبضے اور انتظامی حقوق کے بارے میں ہے ۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ اکھاڑہ داخلی صحن اور جنم استھان پر سینکڑوں برس سے قابض ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جاری سماعت میں گواہوں کے بیانات درج کئے جارہے ہیں جس کے دوران بنچ کے ارکان اور سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون جو ایک مسلم پارٹی کی جانب سے پیش ہوئے گرما گرم زبانی تکرار بھی دیکھی گئی ۔ بعد ازاں عدالت نے نرموہی اکھاڑہ کے وکیل صفائی کو اپنے دلائل دیوانی مقدمہ کی حد تک محدود رکھنے کی خواہش کی اور ان سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی تحریری بیان پڑھ کر سنانے سے گریز کریں ۔ دھون نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ غالباً دلائل کو مختصر کرنے کی ہدایت نہیں دی جائے گی ۔ اس پر چیف جسٹس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی کو بھی کوئی شک نہیں ہونا چاہئیے کہ سماعت میں کسی بھی مسئلہ پر دلائل کو مختصر کیا جائے گا ۔ دھون نے دوبارہ اپنے بیان کا اعادہ نہیں کیا اور دوسرا بیان دینا شروع کردیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ دھون کو چاہئیے کہ عدالت کا وقار برقرار رکھیں ۔ وہ صرف دلائل مختصر اور جامع کرنے کی خواہش کررہے ہیں ۔ ان میں کمی نہیں کررہے ہیں ۔ نرموہی اکھاڑہ کے وکیل نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کا حوالہ دیا ۔