نئی دہلی: بابری مسجد ملکیت تنازعہ کی سپریم کورٹ کی زیرنگرانی مصالحتی کمیٹی کی جانب سےفریقین کےمابین بات چیت اور مباحثہ کےذریعہ معاملہ حل کرانےکی کوشش ناکام ہونے کے بعد چیف جسٹس نے 6 اگست سے روزانہ اس معاملےکی حتمی سماعت شروع کئے جانے کےاحکامات جاری کردیئے ہیں۔ اس پرجمعیۃ علماء ہند کے صدرمولانا ارشد مدنی نےکہا کہ ہم امیدہے کہ مقدمہ کےتمام پہلووں کا احاطہ کرتےہوئےنہ صرف اسےمکمل طورپرسنا جائےگا۔ بلکہ ہمارے وکلاء کوبحث کا پورا پورا موقع بھی دیا جائےگا۔ انہوں نےایک بارپھریہ وضاحت کی کہ ہم اس قانونی بنیاد پرعدالت سےاس مقدمہ کا فیصلہ چاہتے ہیں۔ یہ خالص ملکیت کا مقدمہ ہےاورخود فاضل عدالت بھی ابتداء میں اس کا اعتراف کرچکی ہے، اس لئے ہم اعتقاد کی بنیادپرنہیں ثبوت اورحقائق کی روشنی میں فیصلہ چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہندوستانی مسلمانوں اورملک کےتمام انصاف پسند عوام کے جذبات سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔
جمعیۃعلماء ہند کےصدرمولانا سید ارشد مدنی نےآج کی قانونی پیش رفت پراپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئےکہا ہےکہ ہمیں مصالحت نہ ہونےکا افسوس ہے، ہم عدالت کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے پورے دل سے چاہتے تھےکہ آپسی بات چیت اورمصالحت سےاس معاملہ کا کوئی حل نکل آئے، چنانچہ ہم نےمصالحتی کمیٹی کےساتھ مکمل تعاون کیا۔ مگر افسوس کہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ انہوں نےکہا کہ یہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک حساس ترین تاریخی مقدمہ ہےاورہم اس پرجلد ازجلد فیصلہ چاہتے ہیں، اس لئےعدالت نےآج مقدمہ کی روزانہ سماعت کی جو بات کہی ہے، ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کےصدرسید ارشد مدنی نےمزید کہا کہ متعدد اہم معاملوں میں ہمیں عدالتوں سے انصاف ملاہے۔ اس لئے ہم پرامید ہیں کہ اس اہم مقدمہ میں بھی عدالت سے ہمیں انصاف ملےگا۔ اس کےساتھ ہی مولانا مدنی نےلوگوں سے اپیل کی کہ وہ وہ اس معاملہ کو لیکر کسی بھی طرح کی غیرضروری بیان بازی سے گریز کریں کیونکہ اب مقدمہ حتمی مراحل میں داخل ہوچکا ہےاورکچھ لوگ حسب عادت اشتعال انگیزی اور بیان بازی سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرکے معاشرہ میں انتشاراورخوف پیداکرنے کی دانستہ کوشش کرسکتے ہیں اس لئے ہمیں انتہائی صبروتحمل اوراحتیاط کی ضرورت ہے، ہمیں عدالت پر مکمل اعتمادہے اس لئے ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ عدالت قانونی بنیادپر جو فیصلہ دیگی ہم اسے قبول کریں گے، ہمارے وکلاء بھرپوربحث کے لئے پوری طرح تیارہیں۔
آج دوپہردوبجے جیسے ہی بابری مسجد ملکیت معاملہ کی سماعت شروع ہوئی چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی نےفریقین کو مطلع کیا کہ انہیں مصالحتی کمیٹی کی جانب سے رپورٹ موصول ہوئی ہے جس کے مطابق فریقین کےدرمیان مصالحت نہیں ہوسکی جس کے بعد عدالت اس نتیجہ پرپہنچی ہےکہ اب اس معاملہ کی حتمی سماعت شرو ع کی جانی چاہئےاور سب سے پہلےعدالت رام للا (سوٹ نمبر5) اورنرموہی اکھاڑہ (سوٹ نمبر3) کاموقف سنےگی جس پرجمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیو دھون نےاعتراض کیا اورکہا کہ اس معاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کی اپیل پہلےداخل کی گئی تھی، جس پرسماعت پہلےہونی چاہئےاوروہ گذشتہ ڈھائی سال سے ہرسماعت پربحث کرنےکی تیاری کرکےعدالت میں آتے ہیں۔
قابل ذکرہےکہ معاملہ کی سماعت کرنے والی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوڑاورجسٹس عبدالنظیر شامل ہیں نےآج جب فریقین سےکہا کہ وہ حتمی بحث کےلئےتیاررہیں توجمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹرراجیو دھون نےکہا کہ وہ آج بھی بحث کرنے کےلئےتیارہیں اورعدالت کوان کی اپیل پرپہلےسماعت کرنی چاہئےاس پرچیف جسٹس نےکہا کہ ان کا نمبربھی آئےگا۔ فی الحال عدالت ابھی رام للا اورنرموہی اکھاڑہ کی اپیلوں پرسماعت کرے گی۔ نیزتما م اپیلوں پر یکے بعد دیگرے سماعت ہوگی۔ چیف جسٹس کےاس فیصلہ پرڈاکٹرراجیو دھون نے بھری عدالت میں اپنی ناراضگی کا اظہارکیا۔
سماعت کےدوران ڈاکٹرراجیودھون نے چیف جسٹس سے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹرسبرامنیم سوامی نے رام مندرکی حمایت میں جورٹ داخل کررکھی ہے، اسے خارج کیا جاناچاہئےکیونکہ اس سے پہلے بھی ان کی مداخلت کارکی عرضی خارج ہوچکی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نےکہا کہ آئندہ 6 اگست کواس پربھی فیصلہ لیا جائےگا۔ واضح رہے کہ گذشتہ دنوں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سپریم کورٹ میں داخل پٹیشن 10866-10867/2010 و دیگرعرضداشتوں پر سماعت کےدوران جسٹس بوبڑے نےفریقین کومشورہ دیا تھا کہ وہ عدالت کی نگرانی میں مصالحت کرنے کی کوشش کریں جس کے بعد چیف جسٹس رنجن گگوئی ودیگرججوں نے بھی فریقین کومشورہ دیتےہوئےانہیں چند دنوں کی مہلت بھی دی تھی، لیکن آج جب یہ واضح ہوگیا کہ فریقین کے مابین مصالحت نہیں ہوسکی توعدالت نے مندرجہ بالافیصلہ دیا۔
بابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت پٹیشن نمبر 10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کے ساتھ ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ جارج، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ محمد عبداللہ و دیگر موجود تھے۔
(سیاست نیوز)