ایودھیا مسئلہ :مصالحتی کمیٹی ایک ہفتہ میں رپورٹ پیش کرے

   

سپریم کورٹ کی خواہش۔ مسئلہ بات چیت سے حل نہ ہو تو 25 جولائی سے یومیہ سماعت ہوگی
نئی دہلی 11 جولائی ( سیاست ڈاٹ کام )سپریم کورٹ نے آج بابری مسجد ۔ رام جنم بھونی اراضی تنازعہ میں جاریہ مصالحتی عمل پر تازہ موقف سے متعلق رپورٹ طلب کی ہے ۔ عدالت نے متعلقہ کمیٹی سے کہا ہے کہ وہ اندرون ایک ہفتہ رپورٹ پیش کرے اور یہ واضح بھی کردیا ہے کہ اگر اس مسئلہ کو باہمی طو رپر حل نہیں کرلیا گیا تو اس کی 25 جولائی سے یومیہ اساس پر سماعت شروع کردی جائیگی ۔ایک پانچ رکنی دستوری بنچ نے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں سابق سپریم کورٹ جج ( ریٹائرڈ ) جسٹس ایف ایم آئی خلیفۃ اللہ سے خواہش کی ہے کہ وہ 18 جولائی تک رپورٹ پیش کریں۔ جسٹس خلیفۃ اللہ سہ رکنی مصالحتی کمیٹی کے صدر نشین ہیں۔ بنچ نے کہا کہ رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اگر یہ نتیجہ آخذ کیا گیا کہ بات چیت کے ذریعہ کوئی قابل قبول حل ممکن نہیںہے تو پھر سپریم کورٹ میں 25 جولائی سے اس مسئلہ پر یومیہ اساس پر سماعت کا آغاز کردیا جائیگا ۔

بنچ نیں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڈے ‘ جسٹس ڈی وائی چندرا چوڑ ‘ جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نظیر بھی شامل ہیں۔ بنچ نے کہا کہ ہمارے خیال میں یہ بہتر ہوگا کہ جسٹس ( ریٹائرڈ ) خلیفۃ اللہ ‘ آج کی تاریخ تک ہونے والی پیشرفت اور اس کے مرحلہ سے واقف کروائیں جس کا عمل فی الحال جاری ہے ۔ بنچ نے کہا کہ جسٹس خلیفۃ اللہ کو 18 جولائی آئندہ جمعرات تک اپنی رپورٹ پیش کرنی چاہئے جس تاریخ پر عدالت مزید احکام کی اجرائی عمل میں لائے گی ۔ سپریم کورٹ نے یہ احکام ایک درخواست پر جاری کئے ہیں۔ یہ درخواست اس تنازعہ کے ایک حقیقی درخواست گذار گوپال سنگھ وشاراد کے ورثاء نے دائر کی ہے جن کی استدعا تھی کہ اس مسئلہ پر عدالتی فیصلہ سنایا جائے اور جاریہ مصالحتی عمل کو روک دیا جائے ۔ درخواست گذاروں کا ادعا تھا کہ مصالحت کی کوششوں میں ابھی تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے ۔ مباحث کے دوران رام لالا کی پیروی کرنے والے سینئر وکیل رنجیت کمار نے درخواست گذاروں کی حمایت کی اور کہا کہ یہ لوگ پہلے بھی مصالحتی کوششوں کی مخالفت کرچکے ہیں۔ ایک مسلم فریق کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل راجیو دھون نے مصالحتی عمل کو کالعدم کرنے کی مخالفت کی اور کہا کہ اس کمیٹی کو بات چیت جاری رکھنے کا موقع دیا جانا چاہئے کیونکہ تازہ درخواست در اصل اس کمیٹی کو خوفزدہ کرنے کی کوشش ہے ۔ تاہم بنچ نے کہا کہ چونکہ سپریم کورٹ نے پیانل تشکیل دیا تھا اس لئے وہ ان سے رپورٹ طلب کرنے کا مجاز ہے ۔ درخواست گذاروں کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے سینئر وکیل کے ایس پراسرن نے کہا کہ کسی مصالحتی کمیٹی سے اس نوعیت کے مسئلہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی امید کرنا ہی درست نہیں ہے۔ اب تک کمیٹی کی بیٹھکوں کی تعداد کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہتر یہی ہوگا کہ سپریم کورٹ عدالتی طور پر اس مسئلہ کا فیصلہ سنائے ۔ اس موقع پر مسٹر دھون نے کہا کہ ان کے خیال میں اس موقع پر مصالحتی کمیٹی کے طریقہ کار پر تنقید کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم مصالحتی کمیٹی سے رپورٹ طلب کرینگے ۔