پوجا اور انتظامات کیلئے نرموہی اکھاڑہ کی حریف تنظیم کو وکیل کی درخواست پر سپریم کورٹ بنچ کا جواب
نئی دہلی 22 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) ایودھیا میں رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد کی اراضی سے متعلق کئی دہائیوں سے جاری مقدمہ کے ایک قدیم ترین ہندو فریق نروانی اکھاڑہ کو منگل کے روز ایک تحریری نوٹ داخل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس فریق نے اس مقام پر بھکت کی حیثیت سے مورتی کی پوجا کے انصرام کا حق دینے کی درخواست کی تھی۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے زیرقیادت پانچ رکنی دستوری بنچ پر نروانی اکھاڑہ کے وکیل نے یہ مسئلہ رجوع کیا تھا اور کہاکہ ان کے موکل نے راحت کے لئے تحریری نوٹ داخل کرنے عدالت کی طرف سے دیئے گئے تین دن کے وقت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔ چنانچہ اب عدالت عظمیٰ کی رجسٹری میں نوٹ داخل کرنے کی اجازت چاہتا ہے۔ جس پر بنچ نے کہاکہ ’آپ اپنا تحریری نوٹ داخل کریں۔ اس بنچ نے جس میں جسٹس ایس اے بوبڈے اور جسٹس ایس اے نذیر بھی شامل ہیں، نروانی اکھاڑہ کے وکیل جے دیپ گپتا سے تحریری نوٹ داخل کرنے کے لئے کہا تھا۔ ایودھیا کے اس متنازعہ مقام پر نرموہی اکھاڑہ اور اس کے حریف نروانی اکھاڑہ متنازعہ مقام پیدائش پر پوجا اور انتظامات کے حق کی دعویداری کررہے ہیں۔ نرموہی اکھاڑہ نے 1959 ء سے پوجا کا حق مانگتے ہوئے درخواست دائر کی تھی۔ اترپردیش سنی سنٹرل وقف بورڈ نے 1961 ء اور رام للا نے دیوکی نندن اگروال کے ذریعہ 1989 ء میں دائر کردہ مقدمہ میں نروانی اکھاڑہ کو فریق بنایا تھا۔ نروانی اکھاڑہ کے تحریری نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ’متذکرہ مقدمات میں کسی بھی ہندو فریق نے انتظامات کی ذمہ داری اور حق کے لئے کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے بلکہ اُنھوں نے خود کے مالک یا رام للا کے دوست ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور متنازعہ ڈھانچہ کے مقام پر مندر بنانے کی اجازت کے لئے استدعا کی ہے‘۔ تحریری نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’موجودہ درخواست گذار (نروانی اکھاڑہ) کے انتظامی اور پجاری کے حقوق کسی تنازعہ یا چیلنج کے بغیر برقرار ہیں‘۔ قبل ازیں مسلم فریقوں نے جن میں سنی وقف بورڈ بھی شامل ہے، سپریم کورٹ میں پیش کردہ اپنے تحریری نوٹ میں کہاکہ ملک کی سیاست اور آنے والی نسلوں پر ایودھیا تنازعہ سے متعلق عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے اثرات مرتب ہوں گے۔