مسلم فریق کے وکیل راجیو دھون نے رام جنم بھومی کی تصویر پر مشتمل نقشہ چاک کردیا
نئی دہلی ۔ 16 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ نے چہارشنبہ کے دن سیاسی طور پر حساس رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد متنازعہ اراضی ایودھیا ملکیت کے مقدمہ کی سماعت مکمل کرلی اور اپنا فیصلہ محفوظ کردیا۔ بنچ نے مقدمہ کی 40 دن سماعت کے بعد دلائل سے اس معاملہ میں نتیجہ اخذ کرلیا۔ پانچ رکنی دستوری بنچ کی صدارت چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کررہے تھے۔ انہوں نے فریقین کو تین دن کی مہلت دی ہے تاکہ تحریری نوٹ ان موضوعات کو واضح کرتے ہوئے جن پر مسائل کی توجہ مرکوز ہے، عدالت میں داخل کردی جائیں۔ بنچ کے دیگر ارکان جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس ایس اے نذیر ہیں۔ سنی وقف بورڈ اور دیگر مسلم فریقین کی پیروی سینئر ایڈوکیٹ راجیودھون کررہے تھے جو اس بات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے کہ مغل شہنشاہ بابر نے متنازعہ رام جنم بھومی۔ بابری مسجد اراضی پر ایودھیا میں مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ ہندو فریق نے سپریم کورٹ میں چہارشنبہ کے دن کہا کہ مسلم فریق اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے سے قاصر رہا۔ 1961ء میں مقدمہ سنی وقف بورڈ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس میں چند مسلم افراد بھی شامل تھے اور انہوں نے پورے 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی پر ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ اراضی ایودھیا میں واقع ہے۔ ہندو محاسبہ کی پیروی سینئر ایڈوکیٹ ویدیاناتھن کررہے تھے۔ انہوں نے اگر مسلم فریق کا ملکیت کا دعویٰ اس فرمان کی بنیاد پر ہے جو حریف کے قبضہ میں ہے تو انہیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماضی میں یہاں پر مندر موجود تھا اور وہی متنازعہ اراضی کا حقیقی مالک ہے۔ وہ حریف فریق کے قبضہ میں فرمان موجود ہونے کا دعویٰ کرکے فائدہ حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں سابق خریدار کی دستاویزات پیش کرنی ہوں گی جس سے ظاہر ہوکہ اس مقدمہ میں یہاں کوئی مندر یا کوئی مورتی نہیں تھی۔ ویدیاناتھن نے بنچ کے اجلاس پر یہ دلیل پیش کی کہ مسلمان ایودھیا میں کئی مقامات پر نماز ادا کرسکتے ہیں لیکن ہندوؤں کیلئے لارڈ رام کا مقام پیدائش یا اس کے کھنڈرات مقدس حیثیت رکھتے ہیں، یہ ناقابل تبدیل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم فریق کے دلائل کہ اراضی وقف کردی گئی تھی۔ اس بنیاد پر کہ ایک طویل عرصہ سے اسے استعمال کیا جارہا تھا، یہ کوئی پختہ دعویٰ نہیں ہے کیونکہ یہ قطعی قابض نہیں تھے کیونکہ ہندو اور مسلمان دونوں یہاں بیٹھتے تھے۔
ایک اور سینئر قانون داں رنجیب کمار نے ہندو بھگت گوپال سنگھ وچارد کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان یہ ثابت کرنے سے قاصر رہے کہ ان کا دعویٰ درست ہے۔ سنی وقف بورڈ اور دیگر 8 افراد کا مقدمہ خارج کردینا چاہئے جیسا کہ وشارد اور دیگر ہندو بھکتوں کا ادعا ہیکہ وہ اس مقام پر پہلے سے ہی پوجا کرتے آرہے ہیں۔ متنازعہ اراضی کے بارے میں فیصلہ مسلمانوں کے عقیدہ کی بنیاد پر نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے اپنے دلائل کے اختتام پر یہ بات کہی۔ دریں اثناء راجیودھون سینئر قانون داں جو مسلم فریقین کی رام جنم بھومی۔ بابری مسجد اراضی تنازعہ مقدمہ میں پیروی کررہے تھے، ایک باتصویر نقشہ کو چاک کردیا جس میں لارڈ رام کے حقیقی مقام پیدائش کی تصویر شامل تھی۔ ان کی یہ کارروائی سپریم کورٹ کی چہارشنبہ کے دن سماعت کے دوران پیش آئی۔ انہوں نے ایودھیا میں متنازعہ اراضی پر لارڈ رام کے جائے پیدائش کو دکھانے والے باتصویر نقشہ کو چاک کردیا۔ سینئر ایڈوکیٹ وکاس سنگھ نے جو کل ہند ہندو مہاسبھا کی پیروی کررہے تھے، دھون کی اس کارروائی پر اعتراض کیا۔ راجیودھون نے بنچ سے دریافت کیا تھاکہ انہیں اس کے ساتھ کیا کرنا چاہئے۔ اس پر بنچ نے کہا تھا کہ وہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہیں۔ چنانچہ دھون نے اس کے بعد باتصویر نقشہ چاک کردیا جو کل ہند ہندو مہاسبھا کے وکیل صفائی میں کمرہ عدالت میں پیش کیا تھا۔ دلائل کے دوران سنگھ نے الہ آباد ہائیکورٹ کے فیصلہ کے مختلف پہلوؤں کا حوالہ دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ایک عرصہ سے یہ عقیدہ ہندوؤں کے عقائد کا ایک حصہ ہیکہ لارڈ رام کی مقدس جائے پیدائش اسی مقام پر واقع ہے۔ راجیودھون نے سنگھ کی اس کوشش پر بھی اعتراض کیا جس میں انہوں نے سابق آئی پی ایس عہدیدار کشور کنال کی ایک تصنیف کا حوالہ دینے کی کوشش کی تھی کہ ایسی کوششوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے واضح کردیا کہ وہ سماعت کی آج تکمیل کرلیں گے اور مزید مہلت نہیں دی جائے گی۔ بنچ نے کہا ’’اب بہت ہوچکا‘‘ یہ معاملہ آج 5 بجے شام ختم ہوجائے گا۔ سپریم کورٹ نے قبل ازیں کہا تھا کہ سماعت کا اختتام 17 اکٹوبر کو کیا جائے گا۔ نئی قطعی آخری مہلت میں ایک اور دن کی کمی کی گئی ہے کیونکہ چیف جسٹس آف انڈیا اپنے عہدہ سے 17 نومبر کو سبکدوش ہونے والے ہیں۔ بنچ نے ایک فریق کی اس درخواست کو بھی مسترد کردیا جس میں اس معاملہ میں مداخلت کی اجازت طلب کی تھی اور کہا کہ اس مداخلت کی کارروائی کے موجودہ مرحلہ پر اجازت نہیں دی جاسکتی۔