ایودھیا کیس : چیف جسٹس گوگوئی اور دیگر کی کٹھن آزمائش

,

   

نئی دہلی ۔ 2 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) ماضی قریب کے سیاسی طور پر نہایت پیچیدہ کیس رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد ملکیتی تنازعہ کی تقریباً 2 ماہ سے جاری سماعت نے چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی دستوری بنچ کو کٹھن آزمائش نے جکڑ رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کی اس بنچ کی طرف سے چیف جسٹس گوگوئی پہلے ہی تمام فریقوں پر واضح کرچکے ہیں کہ انہیں 2.77 ایکڑ متنازعہ اراضی کی ملکیت کیلئے اپنی دعویداری کے حق میں دلائل پیش کرنے میں قطعی مہلت کی تعمیل کرنی ہوگی۔ انہوں نے دلائل کی سماعت کیلئے 18 اکٹوبر تک کا وقت دیا ہے تاکہ بنچ کو 17 نومبر کو اپنا فیصلہ سنانے کا موقع مل سکے، جس روز وہ سبکدوش ہورہے ہیں۔ ججوں اور کونسلوں کے درمیان دلائل کا گرماگرم تبادلہ اور فاضل عدالت میں سماعت کے پورے وقت میں زبردست گہماگہمی معمول بن چکی ہے۔ بڑی تعداد میں ایڈوکیٹس اس معاملہ کی سنوائی کے وقت جمع رہتے ہیں اور کمرہ عدالت کے اندرون وزیٹرس ایریا بھی بھرا رہتا ہے۔ پانچ ججوں نے عملی طور پر اختراعی طریقہ کار اختیار کیا ہے اور مختلف مہارت کے مطابق اپنا اپنا علحدہ رول طئے کیا ہے تاکہ 70 سال قدیم ایودھیا ملکیتی تنازعہ کا ممکنہ حد تک ٹھیک ٹھیک فیصلہ کیا جاسکے۔ چیف جسٹس نے دونوں فریقوں کو دلائل کی بڑے صبر کے ساتھ سماعت کی ہے اور کونسلس کو اپنا کیس پیش کرنے کی پوری آزادی دی ہے۔ چیف جسٹس نے مختلف فریقوں میں وقت کو اس طرح بانٹا ہیکہ رام للا ورجمان، نرموہی اکھاڑہ اور سنی وقف بورڈ کو اپنی متعلقہ بحث کی تکمیل کیلئے وقت مختص کیا گیا ہے۔ منگل کو عدالت کے اندرون ماحول کشیدہ ہوچلا تھا جب چیف جسٹس نے مسلم فریقوں کو یاد دہانی کرائی کہ ہندو فریقوں کو بھی ان کا جواب پیش کرنے کیلئے مساوی موقع دینا پڑے گا۔ پانچ رکنی بنچ نے جسٹس ایس اے بوبڈے دوسرے سینئر جج ہیں۔ انہوں نے اس کیس میں دونوں فریقوں سے ایقان اور عقیدہ اور مذہب کے تعلق سے کافی چبھتے ہوئے سوالات کئے ہیں۔