’’ مجھے فلاں جج چاہیئے ‘‘نہیں کہا جاسکتا، کرشنا آبی تنازعہ پر سماعت کیلئے تجسس برقرار
حیدرآباد۔/6جولائی، ( سیاست نیوز) دریائے کرشنا کے آبی تنازعہ پر تلنگانہ ہائی کورٹ میں آج سماعت ہوئی۔ ایڈوکیٹ جنرل بی ایس پرساد نے عدالت سے درخواست کی کہ اس معاملہ کی چیف جسٹس کی زیر قیادت بنچ پر سماعت کی جائے کیونکہ یہ دونوں ریاستوں کا آبی تنازعہ ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ دریاؤں کے آبی تنازعات کے معاملات روسٹر کے تحت چیف جسٹس کے اجلاس پر پیش کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس رامچندر راؤ کی زیر قیادت بنچ کو وہ اس بات کی اطلاع دے رہے ہیں۔ ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ روسٹر پر اپنے اعتراضات جسٹس رامچندر راؤ بنچ کے علم میں لانے کیلئے چیف جسٹس ہیما کوہلی نے انہیں ہدایت دی ہے۔ چیف جسٹس ہیما کوہلی نے فریقین کے وکلاء کی جانب سے غیر یقینی صورتحال اور تنازعہ پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ججس کے بارے میں اندیشوں کا اظہار کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ججس پر اعتراض ہے تو درخواست واپس لی جاسکتی ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ وہ اپنی اس درخواست کو واپس لیتے ہیں جو انہوں نے درمیان میں داخل کی ہے۔ چیف جسٹس نے درخواست گذار کے وکیل وینکٹ رمنا پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے جسٹس رامچندر راؤ کے اجلاس پر کل اس مسئلہ کو پیش کرنے کے بارے میں سوال کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے فلا جج چاہیئے کہنا عدلیہ کے طریقہ کار کے مطابق نہیں ہے۔ کس بنچ پرسماعت ہونی ہے اس کا فیصلہ چیف جسٹس کی حیثیت سے میں کرتی ہوں۔ آئندہ سماعت کے بارے میں وکلاء کو بعد میں اطلاع دی جائے گی۔ واضح رہے کہ آندھرا پردیش سے تعلق رکھنے والے دو کسانوں نے آبپاشی پراجکٹس میں برقی کی تیاری کے خلاف درخواست دائر کی۔ جسٹس رامچندر راؤ کی زیر قیادت ڈیویژن بنچ پر کل اس کی سماعت تھی لیکن ایڈوکیٹ جنرل نے چیف جسٹس کے اجلاس پر سماعت کی تجویز پیش کی۔ درخواست گذار کے وکیل نے کہا کہ چونکہ جج کا تعلق آندھرا پردیش سے ہے لہذا ایڈوکیٹ جنرل نے چیف جسٹس کے اجلاس پر سماعت کی تجویز پیش کی ہے۔ جسٹس رامچندر راؤ نے بھی ایڈوکیٹ جنرل کے رویہ پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ چیف جسٹس سے اس بارے میں صلاح و مشورہ کے بعد کچھ کہہ پائیں گے۔ کسانوں نے ہائیڈل پاور جنریشن کے آغاز کیلئے 28 جون کو جاری کردہ جی او 34 کو چیلنج کیا ہے۔