پی چدمبرم
اب کا 15 اگست کوئی معمولی 15 اگست نہیں تھا۔ گزشتہ 73 برسوں میں ایسا 15 اگست کبھی نہیں آیا، جشن یوم آزادی میں وہ بچے دکھائی نہیں دیئے جن کے ہاتھوں میں اپنی غربت کے باوجود چھوٹے چھوٹے ترنگے ہوا کرتے تھے۔ شہر کے اہم مراکز پر لوگوں کے ہجوم بھی دکھائی نہیں دیئے۔ مٹھائیوں کی تقسیم کے مناظر اور بہت زیادہ جوش و خروش بھی نظروں سے اوجھل تھے۔
ہندوستان کو اس سے پہلے اس قدر شدید معاشی انحطاط کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا تھا (جس کے 4 تا 10 فیصد ہونے کی پیش قیاسی کی گئی تھی) اس سے پہلے کبھی بھی کسی بھی وباء نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں اس طرح نہیں لیا تھا جس طرح آج کورونا نے سارے ہندوستان کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔ نتیجہ میں لوگ اپنے گھروں تک محدود ہونے کے لئے مجبور ہوگئے اور جہاں تک ہمارے پڑوسی ملکوں کی جانب سے ہمیں اور ہمارے ملک ہندوستان کو آنکھیں دکھانے، ڈرانے، دھمکانے اور دراندازی کے ذریعہ سرحدوں پر بے چینی پیدا کرنے کا سوال ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی ان پڑوسی ملکوں نے ہمیں اس طرح آنکھیں نہیں دکھائیں ہم پر اپنی طاقت آزمائی نہیں کی۔وزیر اعظم نریندر مودی کے لئے 15 اگست سے پہلے کا دن یقینا یوم عکس رہا ہوگا۔ ایک ایسا دن جو اس بات پر غور کرنے کا اور جائزہ لینے کا دن رہا ہوگا کہ آخر ان کی حکومت نے حالات بد سے بدتر ہونے کی اجازت کیوں دی جن پر ہم تمام ہندوستانیوں کو افسوس ہے اور فکر لاحق ہے۔ 15 اگست کا دن اس لئے بھی معمولی دن نہیں تھا کیونکہ وزیر اعظم مودی ایک نئے آغاز کا عہد کرسکتے تھے خاص طور پر مجھے پوری پوری امید تھی کہ وزیر اعظم نریندر مودی اس مرتبہ لال قلعہ کی فصیل سے ایک مختصر سا خطاب کرتے ہوئے ماضی میں کی گئیں غلطیوں کا اطراف کریں گے اور قوم سے یہ وعدہ کریں گے کہ وہ آئندہ کسی بھی معاملہ میں یکطرفہ فیصلے نہیں کریں گے بلکہ ریاستی حکومتوں اور اپوزیشن جماعتوں سے صلاح مشورہ کے ذریعہ فیصلے کریں گے۔
تین سرنگ : ۔ میں نے 15 اگست کے لئے مودی کے خطاب میں جن باتوں کی امید کی تھی ویسا نہیں ہوا بلکہ اس کے برعکس ہوا۔ مختصر خطاب کی بجائے وزیر اعظم نے 90 منٹ تک خطاب کیا۔ وہ مسلسل بولتے گئے کوئی توقف نہیں کیا اور نہ ہی کسی نکتہ پر رکے۔ ان کی آواز کا جو اتار چڑھاو تھا وہ بھی کم نہیں تھا بلکہ حسب معمول انہوں نے چیخ چیخ کر اپنے خیالات ظاہر کئے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کے بھکت، ان کی تعریف و ستائش کرنے والے یہی کہیں گے کہ وزیر اعظم کا مظاہرہ شاندار رہا۔ انہوں نے نیکی کا کام کیا۔ میرے خیال میں وہ حد سے زیادہ اعتماد تھا۔ تاہم ان کے بھکتوں اور ان کی شان میں ہمیشہ قصیدے لکھنے والوں نے ایک بات ضرور نوٹ کی ہوگی جو میں نے نوٹ کی ہے، وہ یہ ہے کہ اپنے دیڑھ گھنٹہ طویل خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کسی کی جانب یہاں تک کہ کیمروں کی طرف بھی ایک مرتبہ مسکراکر نہیں دیکھا، مجھے شبہ ہے کہ وہ اپنے خطاب کے دوران بہت زیادہ دباؤ کا شکار تھے ہوں گے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ آج ہمارا ملک تین تاریک سرنگوں کے بیچوں بیچ ہے اور کوئی روشنی دکھائی نہیں دیتی صرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور جہاں تک تین سرنگوں کا سوال ہے سب سے پہلی سرنگ گرتی ہوئی معیشت ہے، دوسری سرنگ کورونا وائرس کی بڑی تیزی سے بڑھتی عالمی وباء اور تیسری تاریک سرنگ ہندوستانی علاقے پر ذلت آمیز قبضہ ہے۔
مودی حکومت کا یہ ایقان ہے کہ عوام کی یادداشت بہت کمزور ہوتی ہے۔ اس ضمن میں یہاں ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ 5 دسمبر 2014 کو وزیر مواصلات مسٹر روی شنکر پرساد نے اعلان کیا تھا کہ ہم تمام گرام (گاؤں) پنچایتوں میں آپٹکل فائبر بجھا رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس پراجکٹ میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جبکہ وزیر اعظم نے خود کہا تھا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ کام 2016 تک پائے تکمیل کو پہنچے کیونکہ ہمیں 700,000 کیلو میٹر او ایف سی بچھانا پڑے گا۔ انہوں نے مالی سال (2014-15) کے اواخر تک 50,000 گرام پنچایتوں (جی پی) مارچ 2016 تک ایک لاکھ گرام پنچایتوں اور 2016 کے اواخر تک مزید ایک لاکھ گرام پنچایتوں میں ذیلی اہداف کی تکمیل کا اشارہ دیا تھا۔وزیر اعظم نریندر مودی نے 15 اگست کو اعلان کیا کہ اگلے 1000 یوم میں ملک بھر کے گاؤں میں آپٹکل فائر کنکشن دستیاب رہے گا۔مجھے شبہ ہیکہ یہ دراصل پنچایت اور گاؤں جیسے الفاظ کھیل ہیں کیونکہ مارچ 2020 تک جن گرام پنچایتوں کو FOC کے اہداف دیئے تھے ان کی تکمیل نہیں کی گئی۔ اسی طرح گھروں کو فائبر کنکشن اور براڈ بیانڈ کنکشن بھی نہیں دیئے گئے۔ ڈیجیٹل کوالٹی آف لائف انڈکس 2020 کے مطابق اس معاملہ میں 85 ملکوں میں ہندوستان کا 79 واں مقام ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس حکومت میں شفافیت اور حقائق کا فقدان پایا جاتا ہے۔
دعوے بہت سچائی کم : اسی طرح کی غیر شفافیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مودی حکومت نے ڈھیر سارے دعوے کئے۔ دعویٰ : ہماری اولین ترجیح ملک کو کووڈ ۔ 19 کی عالمی وباء سے نکالنا ہے کیونکہ یہ وباء ہمیں آزادانہ کام کرنے میں رکاوٹ پیدا کررہی ہے۔
حقیقت : ۔ ملک اور شہریوں کو کورونا سے بچانے و محفوظ رکھنے کے لئے حکومت کچھ زیادہ اقدامات نہیں کررہی ہے۔ یہاں تک کہ اُن ریاستوں کو فنڈس ففراہم کرنے سے بھی گریز کررہی ہے جو اس عالمی وباء سے مختلف حکمت عملیاں اپناتے ہوئے لڑرہی ہیں اور انہیں بے شمار کامیابیاں بھی حاصل ہو رہی ہیں۔ ہندوستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں یہ عالمی وباء مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ یومیہ نئے کیسیس کے لحاظ سے (24 گھنٹوں میں 69000 نئے کیسیس) ہندوستان پہلے مقام پر ہے اور ماہرین کے مطابق ہندوستان میں ستمبر کے تیسرے ہفتہ میں کورونا مریضوں کی تعداد 50,00,000 سے تجاوز کر جائے گی۔ جہاں تک ٹیکہ کی تیاری کا سوال ہے ہندوستان ٹیکہ کی تیاری کے معاملہ میں بھی کم از کم ایک سال دور ہے۔ اگر ہم روسی، برطانوی یا امریکی ٹیکے حاصل کریں اس کے باوجود ملک کی تمام آبادی کو ٹیکہ دینا ایک بہت بڑا کام ہوگا۔ آج اگر ہندوستان اس عالمی وباء سے نمٹ رہا ہے اور بچ رہا ہے تو اس کے لئے اس کی آبادی کی ترتیب آبادی کی اپنی مدافعتی قوت اور سب سے بڑھ کر قسمت ذمہ دار ہے۔ ویسے بھی 80 فیصد کیسیس میں بتایا جاتا ہے کہ علامتیں ہی نہیں ہیں۔
دعویٰ : دہشت گردی ہو یا توسیع پسندی ہندوستان دونوں کے خلاف کھڑا ہے اور انہیں شکست دے رہا ہے۔ چاہے وہ ایل او سی سے لیکر ایل اے سی کیوں نہ ہو۔ جب کبھی ہندوستان کو چیلنج کیا گیا ہمارے سپاہیوں نے دشمنوں کو ایسی زبان میں سخت جواب دیا جو وہ سمجھتے ہیں۔
حقیقت : ہندوستانی سپاہیوں کو خراج عقیدت یا خراج تحسین پیش کرنا پوری طرح منصفانہ ہے۔ تازہ واقعہ 15-16 جون کو وادی گلوان میں پیش آیا جب ہمارے 20 سپاہی شہید ہوئے لیکن یہ اب بھی معمہ بنا ہوا ہیکہ آیا ان کی شہادت نامناسب تیاریوں یا غلط احکام کے باعث ہوئی۔