ایک شہر، دو خبریں اور ایک خیال

   

Ferty9 Clinic

محمد مصطفی علی سروری

16 اگست 2019ء جمعہ کا دن تھا اور بارش کا موسم گویا اپنے عروج پر تھا۔ کولکتہ سے تقریباً 28 کیلو میٹر دور واقع بارک پور کے ریلوے اسٹیشن پر عزیز میاں اپنی بیوی حسینہ بانو کے ساتھ کھڑے ہوئے تھے۔ خاص بات یہ تھی کہ اسٹیشن پر کھڑے رہنے کے باوجود ان دونوں میاں بیوی کو وہاں سے گزرنے والی کسی ٹرین سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ کھڑے اس لیے تھے کہ اسٹیشن کے جس مقام پر انہوں نے اپنا پڑائو ڈال رکھا تھا وہاں پر بارش کا پانی انہیں بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔نہ صرف وہ دونوں پانی میں بھیگ رہے تھے بلکہ ان کا سامان بھی بھیگ رہا تھا۔ جمعہ کی رات آگئی لیکن بارش تھی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی اور شام ہوتے ہوتے ان لوگوں پر کپکپی طاری ہوگئی۔ ایسے میں کسی نے پولیس کو اطلاع کردی کہ دو ضعیف لوگ بارک پور ریلوے اسٹیشن پر نہ صرف بھیگ گئے تھے بلکہ بارش سے ان کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے۔ جب پولیس وہاں پہنچی اور اس بوڑھے جوڑے کو اپنے ہمراہ اسٹیشن لے گئی تو بڑی ہی تکلیف دہ صورت حال کا پتہ چلا۔ عزیز میاں کی عمر 85 برس اور ان کی بیوی کی عمر 60 سال بتلائی گئی۔ ان لوگوں کا تعلق ریاست بہار کے سیوان علاقے سے تھا لیکن 1950ء میں ان لوگوں نے کولکتہ کا رخ کیا اور وہیں بس گئے۔ کیا 1950ء سے عزیز میاں ریلوے اسٹیشن پر زندگی گزار رہے تھے؟ قارئین اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔
26؍ مئی 2019ء تک بھی عزیز میاں اپنی بیوی کے ساتھ کرایہ کے ایک مکان میں رہا کرتے تھے۔ ہاں عزیز میاں غریب تھے اور اس کے باوجود رکشہ چلاکر اپنی گزر بسر کا سامان کرتے تھے۔ کرایہ کے لیے وہ جس مکان میں رہتے تھے۔ وہ کوئی بہت بڑا مکان نہیں بلکہ مکان کہنے سے بہتر تھا کہ اس کو ایک کمرہ ہی کہا جائے۔ اس ایک کمرے میں عزیز میاں کی زندگی گزر رہی تھی اور26؍ مئی 2019ء کو جب سترہویں لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا تو عزیز میاں کے مکان دار کندن شاہ نے عزیز میاں کو دھمکایا اور فوری طور پر انہیں گھر سے نکال دیا اور 26؍ مئی سے لے کر 16؍ اگست 2019ء تک عزیز میاں اور ان کی بیوی بارک پور کے ریلوے اسٹیشن پر اپنے سامان کی گٹھری کے ساتھ قیام پذیر تھے۔ لیکن موسم کی مسلسل بارش میں بھیگ کر ان کی طبیعت خراب ہو رہی تھی۔ یوں پولیس نے انہیں اسٹیشن سے باہر نکالا اور خالی گودام میں ٹھہرانے کا انتظام کیا۔ ٹی ایم سی کے ایک مقامی لیڈر سومناتھ شیام نے ان کے کھانے، پینے کے انتظامات کرنے کا وعدہ کیا۔ قارئین کولکتہ کے اخبار ٹیلیگراف نے 18؍ اگست 2019ء کو اپنے رپورٹر سبھاش چودھری کی جو رپورٹ شائع کی اس میں تو اور بھی تفصیلات درج تھیں۔ جس میں بتلایا گیا کہ لوک سبھا انتخابات کے نتائج آنے کے بعد تقریباً 200 خاندانوں کو اپنے گھر اور دوکان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایسے حالات صرف ایک کولکتہ شہر تک محدود نہیں ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں سے بین مذہبی اور بین فرقہ جاتی تنائو اور ٹکرائو کے بارے میں مصدقہ اور غیر مصدقہ خبریں مسلسل آرہی ہیں۔ ایسے پس منظر میں مسلمانوں کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور ان مسائل سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ کوئی کچھ نہیں کر رہا ہے۔ عزیز میاں اور ان کی بیوی کو جہاں پولیس نے گودام میں رہنے کے لیے جگہ دی وہیں پر سومناتھ شیام نام کے ایک ترنمول کانگریس کے لیڈر نے کھانے پینے کا انتظام کیا۔ یعنی سیاسی جماعتیں، حکومتی ادارے کام کر رہے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کا بھی اہم رول ہے۔ جن لوگوں نے عزیز میاں کو ریلوے اسٹیشن پر پریشان حال دیکھ کر پولیس کی مدد لی وہ بھی ایک غیر سرکاری تنظیم Association for Protection of Democratic Rights (APDR) کے کارکن تھے۔
قارئین اب میں خود اس قوم کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا جس سے عزیز میاں کا تعلق ہے یعنی مسلمان۔ ذرا غور کیجیے کہ کولکتہ جیسے شہر میں جہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 10 لاکھ سے زائد بتلائی جاتی ہے وہاں پر ایک غریب مسلمان اپنے کرایہ کے گھر سے محروم ہونے کے بعد 82 دنوں تک ریلوے اسٹیشن پر رہنے کے لیے مجبور ہوا اور اس کی مدد کے لیے جب کوئی سب سے پہلے پہنچے تو وہ لوگ مسلمان نہیں تھے۔
ہندوستان جیسے ملک میں مسلمانوں کے لیے آگے بڑھنے کار استہ دیگر برادران وطن کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے اور ان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے میں ہی نظر آتا ہے۔ جہاں عزیز میاں کو گھر سے بے دخل کرنے والا مکان دار کندن شاہ کولکتہ کا تھا تو عزیز میاں کو اب ان کی عارضی قیام گاہ میں کھانے پینے کا انتظام کرنے والا لیڈر سومناتھ شیام بھی کولکتہ کا ہی رہائشی ہے۔
آیئے اب کولکتہ کی ہی ایک دوسری خبر کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ خبر بھی 18؍ اگست کے دن کولکتہ کے ہی انگریزی اخبار دی ٹیلیگراف میں شائع ہوئی ہے۔ اس خبر کا مرکزی کردار بھی ایک مسلمان کا ہے اور قارئین نوٹ کیجیے جس جمعہ کی شام کو عزیز میاں کو بارک پور کے ریلوے اسٹیشن سے محفوظ جگہ منتقل کیا گیا اسی رات کی بات ہے بلکہ اخباری خبر کے مطابق تقریباً رات کے ایک بج کر 50 منٹ کا وقت ہو رہا تھا۔ کولکتہ شہر میں لاوڈان اسٹریٹ تھیٹر روڈ کے چوراہے پر ایک تیز رفتار جاگوار کار نے ریڈ سگنل کو توڑتے ہوئے وہاں ٹھہری ہوئی مرسیڈیز کو زور دار ٹکر ماری۔ یہ ٹکر اتنی شدید تھی کہ مرسیڈیز گاڑی 20 فیٹ تک ہوا میں اڑ کر سگنل کراس کرنے والے لوگوں پر جاگری جس کے نتیجے میں 2 افراد جائے حادثہ پر ہی ہلاک ہوگئے۔ اس حادثہ کے متعلق ٹیلیگراف اخبار نے تفصیلات بھی لکھیں۔ اخبار کے مطابق حادثہ اتنا شدید تھا کہ مرسیڈیز میں سوار میاں بیوی بھی زخمی ہوئے اور انہیں شریک دواخانہ کردیا گیا اور ٹکر مارنے کے بعد جاگوار میں سوار ڈرائیور نے راہ فرار اختیار کرلی۔ اس حادثہ میں مرنے والے دونوں لوگ بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے تھے اور علاج کی خاطر کولکتہ آئے ہوئے تھے۔ پولیس نے ان لوگوں کی شناخت قاضی محمد معین عالم اور فرحانہ اسلام کی حیثیت سے کی ۔ قارئین اس خبر کے اصل کردار یعنی وہ ڈرائیور جس نے رات کے وقت غیر ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے حادثہ کیا تھا اس کے چہرے پر سے پردہ اس وقت اٹھا جب جاگوار گاڑی کے ذریعہ پولیس نے اس کے مالک کا پتہ لگایا۔ پولیس کے حوالے سے اخبار نے لکھا کہ جاگوار گاڑی کو ارسلان پرویز نام کا ایک نوجوان چلا رہا تھا۔ یہ ارسلان پرویز کون ہے اس کے متعلق اخبار نے لکھا کہ ارسلان دراصل کولکتہ کے مشہور بریانی ساز کا بیٹا ہے۔ جی ہاں قارئین کولکتہ کی سب سے مشہور بریانی ارسلان بریانی ہے اور اس گروپ کی ہوٹلیں کولکتہ کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی بریانی کے لیے معیاری مانی جاتی ہیں اور کچھ عرصہ قبل ارسلان گروپ نے دوبئی میں بھی اپنا ہوٹل شروع کیا ہے۔
ارسلان پرویز کی عمر 21 برس بتلائی گئی ہے۔ جس نے اڈنبرا برطانیہ سے ایم بی اے کی تعلیم حاصل کی اور حادثہ کے وقت وہی گاڑی چلا رہا تھا۔ ٹیلیگراف کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق حادثہ کے بعد ارسلان پرویز دوبئی چلا جانا چاہتا تھا لیکن پولیس نے اس کو گرفتار کرلیا۔
اخبار نے جاگوار گاڑی کے حوالے سے لکھا کہ Jaguar F Pace کار کی مالیت 70 لاکھ سے زائد ہے۔ ارسلان کا بڑا بھائی آسٹریلیا میں پڑھائی کر رہا ہے۔ اس کی ماں بھی بیرون ملک مقیم ہے۔ ارسلان کے چاچا نے اخبار کو بتلایا کہ وہ ایک ڈسپلن زندگی گزارنے والا لڑکا ہے۔ اس کے اندر کوئی خرابی نہیں ہے اوروہ اپنے اسٹاف کے ساتھ ہمیشہ اچھا برتائو روا رکھتا ہے۔ اگلے دن کے اخبار نے ارسلان کی گاڑی کے بارے میں بتلایا کہ وہ گاڑی حادثہ سے پہلے شہر کے مختلف علاقوں میں گھوم رہی تھی اور حادثہ والے سگنل سے پہلے بھی اس گاڑی نے ایک ریڈ سگنل کو توڑا تھا۔ یہی نہیں پولیس نے اخبار کو مزید بتلایا کہ اس مہنگی ترین گاڑی کے خلاف نومبر 2018ء سے جولائی 2019 کے درمیان 48 کیسز زیر التوا ہے۔ جس میں ایک کیس ریڈ لائٹ پر سگنل عبور کرنے اور بقیہ تیز رفتار گاڑی چلانے کے ہیں۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے ارسلان گروپ کی گاڑیاں حادثہ میں ملوث رہیں۔ اخبار ٹیلیگراف کے نمائندے سہنل سین گپتا کی 19؍ اگست کی ایک رپورٹ کے مطابق دو برس قبل 17؍ جنوری 2017ء کو کولکتہ کے سالٹ لیک علاقے میں Porche718 نام کی ایک گاڑی جس کی مارکٹ ویلیو ایک کروڑ سے زائد کی ہے روڈ ڈیوائیڈر سے ٹکراکر حادثہ کا شکار ہوجاتی ہے۔ حادثہ کے بعد ڈرائیور گاڑی کو لاک کر کے چلا جاتا ہے۔ پولیس کرین کی مدد سے گاڑی اسٹیشن لے کر جاتی ہے جہاں پر اگلے دن ارسلان گروپ کا نمائندہ اس گاڑی کو سروس اسٹیشن منتقل کردیتا ہے۔
قارئین اس طرح کی دو تصویریں صرف کولکتہ شہر تک محدود نہیں ہیں۔ ہمارے شہر میں بھی ایسی دو مختلف تصویر ایک نہیں سینکڑوں ملیں گی۔ میرے شہر میں اگر کوئی بھوکا ہے اور میں پیٹ بھر کے کھانا کھاتا ہوں بلکہ لذیذ کھانے کی چکر میں کم لذت والا کھانا ضائع کرتا ہوں تو مجھے سونچنا ہوگا۔
میرے اطراف و اکناف کے علاقوں میں اگر کوئی عزیز میاں کی طرح حالات کا ستایا ہوا ہے۔ تو روز محشر مجھ سے اس کا سوال ہوگا۔ کیا میرا یہ جواب قابل قبول ہوگا کہ بی جے پی حکومت میں آگئی ہے تو مسلمانوں کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ میں آرام سے چھت کے نیچے سوتا ہوں اور کوئی بارش کے موسم میں ٹپکنے والی چھت سے پریشان ہوکر سونا تو دور صحیح سے بیٹھ بھی نہیں سکتا تو مجھے ڈر ہے کہ مجھ سے سوال ہوگا اور آپ بھی تو مسلمان ہیں نا آیئے سونچئے اپنی ذات سے کس قدر اور کس حد تک ہم اوروں کے لیے آسانیاں بانٹ رہے ہیں۔
ارسلان کو مالداروں کی بگڑی اولاد کہہ دینا کافی نہیں۔ذرا غور کیجیے ہم خود اپنے رب کے کتنے فرمانبردار ہیں۔ اللہ ہم سب کو نیک توفیق عطا کرے۔ آمین۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)٭
[email protected]