ناصر بن نصیرالدین
(اسیر فی سبیل اللہ )
ایک قیدی کا اپنے والد کی وفات کے موقع پر جذبات میں گندھا ہوا، آنسوؤں سے مرقوم دعاؤں سے لبریز، صبر کی تلقین لئے ہوئے اپنی والدہ و بہن بھائیوں کے نام خط ۔
یہ خط رضی الدین ناصر (قیدی نمبر141 ؍ 20 کھولی نمبر 200)سابرمتی سنٹرل جیل گجرات نے اپنے والد مولانا نصیرالدین صاحب کی وفات پر اپنے اہل خانہ کو لکھا ہے…!
دل بے حد غمگین ہے کہ ہمارے انتہائی شفیق بابا ہم سے رخصت ہوگئے۔ بیدار دل کے حامل، مجاہدین کے حامی و مددگار، اسیروں کے لئے ہر وقت بے چین، معاشرے کی اصلاح کیلئے ہمہ تن مصروف، امت کی حالت ِ زار پر بے قرار، یتیموں کا سہارا، وارثین ِ شہداء کے کفیل، مساکین کی خوب امداد کرنے والے، رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی میں ہمیشہ آگے، شرکیہ جمہوری سیاست سے برأت کرنے والے، طاغوتی حکمرانوں اور ان کے اہل کاروں سے بے خوف، حق جان لینے کے بعد اس پر عمل کرنے میں جلدی کرنے والے لوگوں کی اپنے بارے میں رائے سے بے پرواہ دنیا سے بے رغبت، تہجد کے پابند، راتوں میں رب کے آگے گڑ گرانے والے، اپنی بیوی کے قدر دان شوہر، اپنی اولاد کیلئے رحمدل باپ، چھوٹے بچوں سے ان کے باپوں سے زیادہ شفقت کرنے والے، اولاد کے حقوق میں ہمیشہ عدل کو ملحوظ رکھنے والے۔ یااللہ! میرے والد کو میں نے ایسا پایا ہے اور آپ ہی اصل حقیقت جانتے ہیں، آپ تو علم بذات الصدور ہیں۔
تکلیف تو بہت ہوئی کیونکہ یہ فطری بات ہے کہ شاک ہوگیا کہ بیماری کی اطلاع پہلے سے نہیں تھی لیکن امی نے ایک بار ملاقات پر بابا کے یہ الفاظ بتائے تھے میری زندگی میں مندر نہ بن پائے۔ چونکہ اللہ اپنے نیک بندوں کی ایسی دعائیں قبول کرلیتا ہے، مجھے ہر وقت یہ خدشہ لگا رہتا تھا کہ جلد خبر آنے ہی والی ہے کیونکہ اخبارات میں تعمیر کی تواریخ کا اعلان ہوچکا تھا، اسی لئے میرا دل مطمئن ہے کہ اللہ عز و جل نے بابا کی بات کی لاج رکھ لی۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کیلئے اس دنیا میں بہت بڑا اعزاز ہے اور آخرت کے لئے اللہ فرماتے ہیں: انا لانضیع اجرالمحسنین۔ کیا یہ وعدہ ہمارے لئے باعث اطمینان و سکون نہیں ہے؟
یہ بات بھی ہمارے لئے خوشی اور سکون کا باعث ہے کہ جس طرح بابا نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اللہ کے دین کیلئے لگا دیا تھا، یہاں تک کہ ان سے متاثر و اِنسپائرڈ کچھ بھائی شہادت کے مقام کو بھی پہنچے۔ اسی طرح حدیث کے مطابق وباء میں موت ہونے کی وجہ سے ان شاء اللہ شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے، اللہ! اُنہیں شہید کی حیثیت سے قبول کرلے۔ آمین
ایسی ہی باتیں ہیں جس کی بناء پر دل کو قرار آجاتا ہے، مصیبت کے اس موقع پر صبر آسان ہوجاتا ہے کہ دنیا مومن کیلئے ایک تکلیف کی جگہ ہے، آزمائش گاہ ہے اور جب وہ اس دنیا سے جاتا ہے تو محسن انسانیت حضرت محمد ﷺ کے مطابق راحت پا لیتا ہے کہ وہ اپنے رب کی مہمانی میں جارہا ہوتا ہے۔ 27 جون کو صبح کھانے سے فارغ ہوکر 10:15 روم میں داخل ہی ہوا تھا کہ زاہد بھائی ایک چٹھی لے کر اندر آئے، دروازہ بند کرکے مجھے ہاتھ میں دے دیئے جس پر گجراتی میں جیلر کی رائٹنگ میں لکھا تھا: ’’بلاسٹ کیس کے آروپی (ملزم) رضی الدین ناصر کے پِتا (والد) آج صبح 8 بجے گزر گئے۔ تدفین کی رسم دوپہر 2 بجے ادا کی جائے گی۔ پتا کے لفظ پر پہنچتے ہی میں نے اِنا اللہ انا للہ راجعون پڑھ لیا کیونکہ مجھے اندازہ ہوچکا تھا۔ اللہ عز و جل نے تھام لیا، صبر کی توفیق دی، حواس قابو میں رہے، فوراً وضو کیا، سجدہ کرکے بابا کے لئے مغفرت، آسانی اور تمام گھر والوں کے لئے صبر کی دعا کی، پھر ساتھی بھائی تعزیت کیلئے اکٹھا ہونے لگے، صبر کی تلقین کررہے تھے، بابا کے نیک کاموں کا تذکرہ کررہے تھے۔ اسد اللہ نے فوراً سپرنٹنڈنٹ کے نام اپلیکیشن لکھی کہ گھر والوں کے ساتھ ویڈیو کال کرائی جائے۔ ساتھ میں یہ بھی درخواست کی کہ لاک اَپ کے ٹائم تسلی کیلئے میرے ساتھ مزید دو لوگوں کو رکھا جائے۔ 12 بجے لاک کا ٹائم ہوجاتا ہے جب تک تو سب لوگ جمع تھے۔ پھر جیلر نے آکر اطلاع دی کہ ہوم منسٹری کی اجازت کے بغیر فون نہیں ہوسکتا اور ساتھ میں کسی اور کو رکھنے سے بھی انکار کردیا گیا۔ 12:15 بجے بند کردیا گیا۔ وضو کرکے دُعا کیلئے بیٹھ گیا۔ خوب دعا کی کہ وہی وقت بابا کیلئے اصل آزمائش کا تھا۔ تدفین اور اس کے بعد کے مراحل پیش آنے تھے۔
(12 بجے ہی جیلر نے یہ بھی بتایا کہ کووڈ سے انتقال ہوا ہے) اب یہ بھی فکر لاحق ہونے لگ گئی تھی کہ گھر پر انتقال ہوا یا سب سے دور اکیلے ہاسپٹل میں؟ امی اور باقی لوگ آخری بار دیکھ بھی پائیں گے یا نہیں۔ غسل دیا جاسکے گا کہ نہیں؟ بابا کی وصیت کے مطابق والے قبرستان میں تدفین ہوپائے گی کہ نہیں؟ گھر میں کوئی اور انفیکٹیڈ ہوا کیا؟ امی کا کیا حال ہوگا؟ غم ہر غم ہوگا۔ تمام گھر والوں کو کورنٹائن کردیا گیا ہوگا!
آئے ۔ سوچا شام میں آئیں گے تو شام میں بھی نہیں آئے! منگل کا دن بھی اسی طرح انتظار میں گزرا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ایک دن ایک ہفتے کے برابر ہو۔ 13 سالہ قید میں وکیل صاحب کا پہلی بار اتنی شدت سے انتظار کیا۔
پیاری امی! صبر پر قائم رہئے کہ سوگ اور غم کے ان دنوں میں اللہ نے صبر کے زیور سے آراستہ ہونے کا حکم دیا ہے، صبر ہی کو اختیار کرکے ان شاء اللہ آپ جنت میں بابا کے مقام کو پہنچ سکتی ہے۔ بے شک آپ کی زندگی کا ایک حصہ آپ سے جدا ہوکر چلا گیا لیکن بہترین اولاد کی صورت میں ایک برا حصہ اب بھی آپ کے ساتھ موجود ہے۔ اپنے بچوں اور ان کے بچوں کو نصیحت کرتے رہئے کہ بابا جیسی بہترین صفات اپنے اندر پیدا کریں۔دنیا کے معاملات میں ایسی چیزوں کو ترک کریں جو اللہ کو ناپسند ہیں، اسی لئے بابا بھی اسے ناپسند کرتے تھے۔ اپنی صحت کا خیال رکھئے، ان شاء اللہ میں آؤں گا اور اللہ سے اُمید ہے کہ آپ کے ساتھ عافیت کے ایام گزریں گے۔
پیاری بہنو! مجھے اس بات کا احساس ہے باپ کی جدائی کا غم بیٹوں سے زیادہ بیٹیوں کو ہوتا ہے اور آپ غمگین کیوں نہ ہوں کہ بابا نے آپ دونوں کے ساتھ جو شفقت کا معاملہ کیا، وہ قابل رشک ہے۔ اللہ آپ پر اپنے صبر کا فیضان فرمائے اور بابا کے بیٹوں کو توفیق دے کہ وہ بابا کی طرح ہی آپ دونوں کے ساتھ احسان سے پیش آئیں۔ اللہ آپ کی زندگیاں سکون سے بھردے۔
ان ساری ذمہ داریوں اور مصائب سے تو میں کافی دور ہوں۔ شاید مجھے اندازہ بھی نہ ہو کہ ذمہ داریوں کا بوجھ کیسا ہوتا ہے۔ اللہ قدم قدم پر آپ کی رہنمائی فرمائے۔ آمین۔ ایک صحابی نے عرض کیا: ’’میرے والدین کی موت کے بعد ان کی اطاعت میں کوئی چیز باقی ہے۔؟ رسول اکرم ؐ نے فرمایا : ’’ہاں! چار باتیں باقی رہتی ہیں، ان کے حق میں رحم و کرم اور مغفرت کی دعا کرنا ، ان کے وعدے پورے کرنا، ان کے دوستوں کی عزت کرنا، ان کی وجہ سے قائم رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنا ‘‘۔ (ابوداؤدؒ)
پیارے بچو! ’’نانو؍ دادو ! تم سب سے کتنی محبت کرتے تھے، اب ان کی محبت کا یہ صلہ ہے کہ تم لوگ زیادہ سے زیادہ ان کیلئے مغفرت اور آسانی کی دعا کیا کرو اور ان کی ساری محبت کا حصہ ننا(نانی) کو دو ، انہیں خوش رکھو ، ان کا خیال رکھو ، ان کی دلجوئی کیا کرو، ان کے کام کردیا کرو، اور انہیں ناراض کرنے والے کام کبھی مت کرنا‘‘۔
ہمارے تمام ساتھی ،امی اور بھائیوں کو سلام کہہ رہے ہیںاور تعزیت کررہے ہیں۔ اسد اللہ شاید خط بھی لکھ رہے ہیں۔ والسلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
وقت : 10:45 بجے شب
تاریخ: 3 جولائی 2020ء
و آخر دعوانا ان الحمدللہ رب العالمین و صلی اللہ علی نبینا محمد و علی الہ و اصحابہ اجمعین ۔