ایک وباء ہزاروں اموات و پریشانی

   

پی چدمبرم

کووڈ۔ 19 عالمی وباء کی دوسری لہر ماہ مئی کے ختم کے بعد اپنے اختتام کو پہنچے گی یا نہیں، یہ حالات پر منحصر ہے۔ اس بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی دوسری وباء ختم ہو بھی سکتی ہے یا نہیں، یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ اسی طرح کورونا کی تیسری لہر ہندوستان کو متاثر کرتی ہے یا نہیں کرسکتی، یہ بھی ایک معمہ ہے۔ مگر ہر کسی کا یہی خیال ہے کہ تیسری لہر بھی ہندوستان کو متاثر کر بھی سکتی ہے یا نہیں بھی۔ جیسے کہ اس لہر نے چند ملکوں کے ساتھ کیا ہے۔ چند ہفتے یا مہینوں کے بعد ایک ہی چیز یقینی دکھائی دیتی ہے کہ کورونا وائرس کے بارے میں ہر چیز غیریقینی اور ناقابل قیاس ہے۔ کورونا وائرس نے کئی حکومتوں کو پریشان کر رکھا ہے۔

بہترین قیادت درکار
نیوزی لینڈ ایک چھوٹا سا جزیرہ نما ملک ہے اور اس کی آبادی بھی بہت کم ہے۔ وہاں ایک نوجوان وزیراعظم کی قیادت میں بڑے ہی پرعزم انداز میں کورونا کے خلاف اقدامات کئے گئے اور بہترین منصوبہ بندی کے ذریعہ اس کا مقابلہ کیا گیا۔ دوسری طرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ جیسا بڑا ملک ہے ، جہاں 50 ریاستیں وسیع و عریض رقبہ پایا جاتا ہے، وہاں کی آبادی 332 ملین ہے لیکن امریکہ میں حکومت کی قیادت ایک دانش مند اور ضعیف العمر صدر کررہا ہے۔ اس ضعیف العمر صدر نے کورونا کی وباء سے نمٹنے کیلئے تمام تر وسائل کو متحرک کیا اور 100 دنوں میں 100 ملین ٹیکے لگانے کے مقاصد کا تعین کیا۔ اب تک 200 ملین لوگوں کو امریکہ میں ٹیکے لگائے جاچکے ہیں۔ ہمارے سامنے برطانیہ اور یوروپی ممالک کی مثالیں بھی ہیں، جنہوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ اس عالمی وباء کا مقابلہ کیا۔

فی الوقت کورونا وائرس سے متاثر ہوکر بے شمار افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں۔ اگر جاریہ سال کورونا سے مرنے والوں کی تعداد کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے اس سال بہت زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال اس مدت میں جو اموات ہوئیں، اس کی بہ نسبت جاریہ سال اسی مدت میں بہت زیادہ اموات منظر عام پر آئی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت یہ کہنے میں مصروف ہے، یہ اموات کووڈ۔ 19 سے نہیں بلکہ دیگر بیماریوں میں مبتلا ہوکر بھی لوگ موت کا شکار ہوئے ہیں‘‘۔ یہ دلاسہ دینے کیلئے تو ٹھیک ہے ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ اموات کووڈ۔ 19 کی وجہ سے نہیں ہوئیں تو پھر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ کثیر تعداد میں نعشوں کے منظر عام پر آنے کے بعد شمشان گھاٹ اور قبرستان میں ان نعشوں کو نذرآتش کرنے یا پھر دفن کرنے کیلئے جگہ نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شمشان گھاٹوں کے اندر یا باہر نعشوں کی قطاریں لگی ہیں۔ اگر ہم سارے ملک کا جائزہ لیں تو کئی ایک تلخ حقائق سے ہمارا سامنا ہوتا ہے۔ گجرات سے ایک بہت بڑی کہانی ہمارے سامنے آئی ہے۔ یکم مارچ تا 10 مئی 2020ء یعنی 71 یوم کی مدت کے دوران حکومت گجرات نے 58,068 ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کئے لیکن جاریہ سال اسی مدت کے دوران ریاستی حکومت نے جو ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کئے، ان کی تعداد ایک لاکھ 23 ہزار 873 رہی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے سال کی بہ نسبت رواں سال 65,805 زائد ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کئے گئے۔ یہ ایسے اعداد و شمار ہیں جن کی آزادانہ طور پر توثیق کی گئی ہے اور یہ ناقابل تردید اعداد و شمار ہیں۔ دوسری جانب حکومت گجرات نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جملہ 4,218 اموات کووڈ۔19 کے باعث ہوئی ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مابقی اموات کیسے ہوئیں۔ ریاستی حکومت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں بلکہ اس نے تو ڈیتھ سرٹیفکیٹس کے بارے میں منظر عام پر آئے اعداد و شمار کو نہ صرف مسترد کردیا بلکہ جھوٹا پروپگنڈہ قرار دیا۔ وہ یہ بھول گئی کہ جھوٹے پروپگنڈہ کا جو ذریعہ ہے وہ دراصل سرکاری طور پر جاری کردہ ڈیتھ سرٹیفکیٹس ہیں۔ ویسے بھی ریاستی حکومت کو یہ بتانا ضروری ہے کہ موت ہی سچائی ہے۔

دنیا بھر کے ماہرین اقتصادیات اور غریبوں میں رہ کر کام کرنے والی ہر غیرسرکاری تنظیم اور دنیا بھر کی حکومتوں نے غریبوں کے اکاؤنٹس میں رقم کی منتقلی یا آمدنی کی منتقلی کے آئیڈیا کی تائید و حمایت کی ہے۔ ہمارے ملک میں بھوک بڑی تیزی کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر بھوک سے متعلق جو عشاریہ ہے اس میں سال 2020ء میں شامل 107 ممالک میں ہمارے ملک کا نمبر 94 واں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری حکومت نے سنٹرل ویسٹا پروجیکٹ کیلئے 20 ہزار کروڑ روپئے مختص کئے ہیں جبکہ صرف 4 ہزار کروڑ روپئے سے ہم تقریباً 100 دنوں تک 40 کروڑ بچوں کو مفت کھانا فراہم کرسکتے ہیں، لیکن مودی حکومت کسی بھی ناگہانی حالات پر ٹس سے مس نہیں ہوتی، نتیجہ میں اموات بڑھتی جارہی ہیں۔ 19 مئی کو ’’اِکنامک ٹائمس‘‘ نے ایک جدول شائع کیا، جس میں دکھایا گیا کہ ہمارے ملک میں یومیہ دیئے جانے والے ٹیکوں کی تعداد میں کتنی کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر یہ بتایا گیا کہ 2 اپریل کو ٹیکوں کی تعداد جو 42 لاکھ 65 ہزار 157 تھی، گر کر مسلسل 6 دنوں تک 20 لاکھ رہی۔ اکنامک ٹائمس نے ٹیکوں کی تعداد میں کمی کے بارے میں پیش کردہ جدول کے ساتھ کچھ تبصرے بھی کئے اور اس کا کہنا تھا کہ ٹیکوں کی سپلائی یا سربراہی کے فقدان کے نتیجہ میں ٹیکہ مہم اندازی متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف ہماری حکومت نے اپنے ملک میں جو بیرونی ٹیکے کے استعمال کو منظوری دی ہے، وہ روسی ساختہ اسپیوٹنک V ہے لیکن روسی ٹیکے کے صرف ایک لاکھ 56 خوراکیں ہی اب تک ہندوستان میں درآمد کی گئی ہیں۔ ماہ مئی میں یومیہ اور اوسطاً دیئے گئے ٹیکوں کی تعداد 16 لاکھ 85 ہزار رہی (19 مئی 2021ء تک)۔ یہ بھی رپورٹ آرہی ہیں کہ ٹیکوں کی کمی پائی جاتی ہے جبکہ مرکزی وزیر صحت طوطے کی طرح یہ رٹے جارہے ہیں کہ ٹیکوں کی کوئی قلت نہیں ہے جبکہ ہر ریاست کا وزیر صحت ٹیکوں کی قلت کی شکایت کررہا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ ٹیکے لینے کیلئے سلاٹ بک کروارہے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ جواب میں مرکزی حکومت یہی دعویٰ کررہی ہے کہ وہ ہر بالغ ہندوستانی کو 31 ڈسمبر 2021ء تک ٹیکے دے گی۔ (اس کا مطلب یہ ہوا کہ مابقی 200 ایام تک یومیہ 35 لاکھ ٹیکے عوام کو دیئے جائیں گے اور یہاں 35 لاکھ ضرب دو خوراک دیئے جانے ضروری ہیں۔

قانون کی حکمرانی اور وفاقیت
15 مئی کو دہلی پولیس نے انڈین یوتھ کانگریس کے صدر بی وی سرینواس سے پوچھ گچھ کی کہ وہ کس طرح آکسیجن کنسٹریٹرس اور ادویات ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے یہ تمام چیزیں کیسے حاصل کیں۔ اسی دن دہلی پولیس نے 24 افراد کو گرفتار کیا اور ان پر یہ الزام لگایا کہ وہ ایسے پوسٹرس چسپاں کررہے ہیں جس پر لکھا تھا کہ ’’وزیراعظم آپ نے کیوں ہمارے بچوں کے ٹیکے دوسرے ملکوں کو بھیج دیئے‘‘ ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر داخلہ اور لیفٹننٹ گورنر دہلی ان گرفتاریوں پر خاموش رہے۔ دونوں میں سے کوئی یہ جواب دینے کے قابل نہیں رہا کہ آخر جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا، ان لوگوں نے کس قانون کی خلاف ورزی کی؟ بہرحال اس عالمی وباء سے لڑیئے اور مرنے والوں کی تعداد کی گنتی کرتے رہئے۔ یہ سب کچھ ہماری حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا ہے۔