افغانستان میں عوام گردے فروخت کرکے زندگی بسر کرنے پر مجبور
کابل: جب فتح شاہ اور ان کے دو بھائی برسوں پرانے قرض چکانا چاہ رہے تھے تواس وقت ان کے پاس دو راستے تھے،یا تو کوئی جرم کرکے پیسے بناتییا اپنے گردے بیچتے۔35 سالہ فتح شاہ نے کہا کہ، ’ہم بار بار ہراساں کئے جانے سے تنگ آگئے تھے‘۔ انہوں نے ایک اسمگلر کی مدد سے پڑوسی ملک ایران جا کر نوکری ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی تاکہ کچھ کمائی گھر بھیج کر اپنا قرض ادا کر سکیں لیکن ہم مزید قرض میں پھنس گئے کیونکہ ہمیں ایران پہنچتے ہی وہاں سے نکال دیا گیا۔ ہم اسمگلر کے مقروض بن گئے جس نے ہمیں ایران تک لے جانے کے لیے پیسے طلب کیے۔ وہ ایک ڈراؤنا خواب تھا۔’تینوں بھائیوں نے پھر اپنا گردہ پیچنے کا فیصلہ کیا جس سے انہیں ایک گردے پر چار ہزار ڈالر تک کی رقم ملی۔ ‘ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ ہم مزید ذلت نہیں برداشت کر سکتے تھے، نہ ہی قرضہ دینے والوں کی باتیں۔ ہمیں یا تو اپنا بڑا قرض ادا کرنے کوئی جرم کرنا پڑتا یا اپنے گردے بیچنے پڑتے اور ہم نے چوری کرنے سے بہتر ایک گردے کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔’تاہم افغانستان میں یہ کام صرف ان بھائیوں نے نہیں کیا۔حالیہ میڈیا رپورٹس کے مطابق، ‘تصدیق شدہ اعداد و شمار’ بتاتے ہیں کہ افغانستان کے بڑے صوبوں میں سے ایک ہرات میں گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ایک ہزار گردے فروخت کیے گئے ہیں۔ایک رپورٹ میں نجی ٹی وی چینل طلوع نیوز نے بتایا ہے کہ ’گردے بیچنے والے ہزاروں افراد ہرات کے ضلع انجیل کے گاؤںشانبا بازار میں رہتے ہیں‘۔ فتح شاہ کا کہنا ہے کہ ان کو گردوں کی غیر قانونی فروخت کا مغربی ہرات سے پتاچلا جہاں وہ اور دیگر کئی افراد صوبہ بادغیس میں خشک سالی کے طویل عرصے بعد رہنے لگے تھے۔