یوگیندر یادو
الیکٹرانک ووٹنگ مشین (EVM) سے متعلق بحث ہماری عوامی زندگی کے سب سے عجیب و غریب جذبوں میں سے ایک ہے۔ جس طرح ہر ہندوستانی کے لئے ضروری ہے کہ ہر معلوم نامعلوم بیماری کے لئے ادویات تجویز کرے اسی طرح ہر ہندوستانی جو بڑی مشکل سے ایس ایم ایس ٹائپ کرسکتا ہے اس کی الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے سافٹ ویر پر رائے ہونی چاہئے اور ہم ہندوستانی چاہے کسی پیشہ سے ہمارا تعلق کیوں نہ ہو ہر معاملہ خاص طور پر ای وی ایم کے بارے میں اپنی رائے دینا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ بہرحال ای وی ایم کے موضوع پر یا پھر اس کے بارے میں جو سازشی نظریات ہیں ان پر کئی گھنٹوں رازدارانہ خاموشی اور معلومات حاصل کرنے کے بعد میں نے محسوس کیاکہ جمہوریت سے محبت، احساس بے بسی اور سائنس فکشن کا مرکب یا مجموعہ ملک کی سیاسی صحت کے لئے بہت مضر ہے۔ اگر آپ غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ 15 برسوں سے زائد عرصہ سے کرداروں کی کاسٹ میں تبدیلی آئی لیکن اسکرپٹ وہی ہے۔ اسکرپٹ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی یہاں تک کہ وی وی پیاٹ مشینوں کے متعارف کروانے کے بعد بھی کرداروں کی کاسٹ میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ EVM سے متعلق سازشی نظریات کو لے کر اب تک جو بحث و مباحث ہوئے ہیں ان بحث مباحثوں نے سارے انتخابی عمل پر پیدا شدہ شکوک و شبہات کو دور کرنے کی بجائے اسے مزید گہرا کیا ہے اور اس ضمن میں گہرے شکوک و شبہات کے بیج بونے (تخم ریزی) کا کام کیا ہے جبکہ کچھ حقیقی انتخابی نقائص / خرابیوں سے توجہ ہٹائی ہے جو یقینا راڈار میں ہے۔ اس پر نظر رکھی جارہی ہے، تاہم اب ہمارے پاس جو وقت ہے وہ اس مسئلہ پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کا وقت ہے تاکہ اس بحث کو جو بہت زیادہ طول پکڑ چکی ہے اسے نہ صرف روکا جائے بلکہ جمہوری اصلاحات سے جڑے اہم مسائل کے حل کی جانب پیشرفت بھی کی جائے۔ اگر دیکھا جائے تو ای وی ایم پر بحث ہمارے جمہوری تصور کی گراوٹ کا آخری نکتہ ہے۔ آپ کو بتادیں کہ 1960-1970 ء کی دہائیوں میں ہم نے پارٹی نظام پر نظرثانی کرکے سیاسی طاقت کی کمی کو دور کرنے یا متناسب نمائندگی کی جانب منتقلی کے ذریعہ جمہوریت کی انداز کارکردگی اس کے طریقہ کو تبدیل کرنے پر بحث کی تھی۔ 1990 ء کی دہائی تک یہ بحث انتخابی اصلاحات تک محدود ہوگئی تھی اور ایک آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعہ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کرانے پر جو انتخابی ضابطہ اخلاق کو نافذ کرتا ہے۔
ویسے بھی 1990 ء کے دہے میں ہم نے سیاسی قوت کو غیر مرکوز کرنے کو یقینی بنانے یا متناسب نمائندگی کو منتقلی پر ازسرنو غور کیا تھا اور پھر اس بحث کو انتخابی سالمیت تک محدود کردیا گیا ہے کہ رائے دہی اور ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران انتخابی دھاندلی کا انسداد کیسے کیا جائے؟ اسے کیسے روکا جائے؟ ای وی ایم اس سے پہلے سے تیار شدہ ایجنڈے کا ایک چھوٹا ذیلی سیٹ ہے چنانچہ اس تناظر میں لوک سبھا انتخابات نے ایک غیر معمولی شروعات کا موقع فراہم کیا۔ حیران کن نتائج نے اس شبہ کو ختم کردیا کہ بڑے پیمانہ پر انتخابی دھاندلی ای وی ایم کی ایک پوشیدہ دھاندلی ہوتی ہے۔ واضح طور پر جن طاقتوں پر شکوک و شبہات کے لئے انگلیاں اُٹھائی گئیں، اُن طاقتوں نے ایسے انتخابی نتائج کو ڈیزائن نہیں کیا ہوگا جہاں وہ اکثریت سے محروم ہوجائیں۔ مثال کے طور پر اترپردیش اور مہاراشٹرا جیسی ریاستیں ہمارے سامنے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ان ریاستوں میں ان طاقتوں کو ذلت کا سامنا کرنا پڑا حالانکہ وہاں وہ اقتدار میں تھے۔ میرے خیال میں اگر زمینی حقائق کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ای وی ایم نے انصاف کی کم سے کم حد کو پورا کرلیا ہے۔ ہاں اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بحیثیت مجموعی انتخابی مقابلہ آزادانہ اور منصفانہ تھا یا کوئی بھی چیز برابری کی سطح پر تھی۔ ایک بات ضرور ہے کہ حتمی انتخابی نتائج لوگوں کے ووٹ ڈالنے کے طریقے کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان نتائج کے بعد عام طور پر انتخابی سالمیت اور خاص طور پر ای وی ایم سے متعلق بحث کی نوعیت کو بدلنا چاہئے تھا۔ افسوس کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ اپوزیشن ای وی ایم پر شکوک و شبہات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح برسر اقتدار جماعت بھی اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ای وی ایم میں کوئی چھیڑ نہیں کی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کا بھی یہی موقف ہے۔ ہم اگر اپوزیشن اور حکمراں جماعت کے دعوؤں اور جوابی دعوؤں کو سنجیدگی سے لئے بناء الیکشن کمیشن کے فرض اور اس کے موقف کو دیکھتے ہیں تو پھر ایسا لگتا ہے کہ ای وی ایم سے متعلق شکوک و شبہات کو دور کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ ساتھ ہی آزادانہ و منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا بھی الیکشن کمیشن کا فرض ہے اور جب الیکشن کمیشن اپنے اس فرض میں ناکام ہوجاتا ہے تب ہی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔